بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں تین ہزار سے زائد گمنام قبریں دریافت ہوئی ہیں جن کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

خیال رہے کہ 2011 میں بھی مقبوضہ کشمیر میں 38 مختلف مقامات پر 2730 قبروں کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا اور اس وقت بھی کمیشن نے حکومت سے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ اب انسانی حقوق کمیشن نے مقبوضہ کشمیر کی حکومت کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے لاشوں کی شناخت کو یقینی بنایا جائے۔دوسری جانب اے پی ڈی پی کا کہنا ہے کہ حکومت تحقیقات کرنے سے گریز کررہی ہے اور اس کا موقف ہے کہ تحقیقات کی گئیں تو اس سے خطے میں امن و امان کو خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ گروپ کے ایک رکن خرم پرویز نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی معتبر تحقیقات کے لیے آزاد کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو سکون حاصل ہوسکے۔خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ قبریں ان کشمیریوں کی ہیں جو ماضی میں لاپتہ ہوچکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی رہائشی طاہرہ نامی خاتون کے شوہر بھی 2002 سے لاپتہ ہیں۔ انہوں نے بھی ان گمنام قبروں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ یہ کہیں لاپتہ ہونے والوں کی قبریں تو نہیں ہیں۔
طاہرہ کا کہنا ہے کہ اگر واقعی یہ لاپتہ افراد کی قبریں ہیں اور ہمارے رشتہ دار یہاں دفن ہیں تو کم سے کم ہمیں یہ سوچ کر ہی صبر آجائے گا کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ طاہرہ کہتی ہیں کہ ان کے بچے اکثر ان سے پوچھتے ہیں کہ بابا کہاں ہیں اور وہ ہمیشہ ان سے جھوٹ کہتی ہیں کہ وہ کام کے سلسلے میں باہر گئے ہیں، لیکن وہ ان سے یہ بات زیادہ دیر تک نہیں چھپا سکتی کیوں کہ اب وہ بڑے ہورہے ہیں








