لاہور: بالی ووڈ گیتوں کو اپنی آواز سے لازوال بنانے والے برصغیر کے لیجنڈ گلوکار طلعت محمود کی آج 20 ویں برسی ہے۔ ان کی گائیکی میں غم کی تصویر جھلکتی ہے۔ طلعت محمود بالی ووڈ موسیقی کا بڑا نام ہے۔ ان کی وجہ سے غزل گائیکی کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ طلعت محمود کی آواز کو درد کا ترجمان کہا جاتا ہے۔ طلعت محمود نے تیرہ زبانوں میں گیت گائے۔ نو مئی 1998 کو وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔

1944 میں طلعت محمود کا گیت تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی ریلیز ہوا تو پورے بھارت میں دھوم مچ گئی، اس گیت کی ایک لاکھ سے زائد کاپیاں پورے بھارت میں فروخت ہوئیں ۔ یہی وہ وقت تھا جب شہرت انہیں کولکتہ لے گئی اور انہوں نے گلوکاری کو ہی اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ اس دور میں طلعت محمود تپن کمار کے نام سے گایا کرتے تھے۔ پانچ برس کی محنت کے بعد انہیں بالی ووڈ انڈسٹری میں اپنی آواز کا جادو جگانے کا موقع مل ہی گیا۔
اس دور میں بالی ووڈ میں زیادہ تر گیت مکیش اور محمد رفیع کی آواز میں ریکارڈ کئے جاتے تھے ، ایسے میں اپنی جگہ بنانا کسی نئے گلوکار کیلئے مشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب انہوں نے فلمی گیتوں کی بجائے اردو غزل گائیکی میں اپنا نام بنانے کا فیصلہ کیا۔ ان کا یہ فیصلہ کامیاب ثابت ہوا اور بالی ووڈ میں انہیں بطور غزل گائیک جگہ مل ہی گئی۔
ان کے یادگار گیتوں میں جائیں تو جائیں کہاں، جلتے ہیں جس کے لیے، اے غمِ دل کیا کروں، پھر وہی شام وہی غم، پیار پر بس تو نہیں، میرا پیار مجھے لوٹا دو، شامِ غم کی قسم۔ حسن والوں کو، یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی وغیرہ شامل ہیں۔ طلعت محمود نے 1990 کی دہائی میں فلموں کیلئے گانا بند کر دیا تھا۔ فلمسازوں کی روائتی بے رخی اور بے حسی کا شکار یہ فنکار دل کے دورے کے باعث 9 مئی 1998 ء کوراہی ملک عدم ہوا۔ ان کی آواز میں گائے ہوئے گیت اور غزلیں آج بھی شوق سے سنی جاتی ہیں۔








