counter easy hit

ماہ رمضان اور صحت سحری میں زیادہ کھانے سے معدے کے مختلف مسائل کا خطرہ 

رپورٹ ؛ ڈاکٹر اظہر علی مبارک سے
ماہ رمضان اور صحت  کیا کھانا اور کیا نہیں کھانا چاہیے…پاکستان سمیت دنیا بھر میں رمضان المبارک کا آغاز ہوگیا ہے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس مرتبہ روزے کا دورانیہ تقریباََ 15 گھنٹے سے زائد ہوگا جبکہ موسم بھی انتہائی گرم ھے ۔ اس کو دیکھتے ہوئے سحری کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
ویسے بھی سحری کھانا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور باعث برکت بھی مانی جاتی ہے جو صحت کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے۔مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ سحری میں کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں کھانا چاہیے؟ویسے یہ ضرور جان لیں کہ سحری میں بہت زیادہ کھانے سے گریز کرنا چاہیے ورنہ معدے کے مختلف مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔سحری کے وقت کاربوہائیڈریٹس سے بھرپور غذائیں جیسے روٹی اور آلو وغیرہ فائدہ مند ہوتی ہیں جو کہ ہضم ہونے میں زیادہ وقت لیتی ہیں جبکہ جسمانی توانائی کو دیر تک برقرار رکھتی ہیں۔فائبر سے بھرپور پھل اور اجناس جیسے کیلے، سیب اور جو وغیرہ بھی دیر تک پیٹ کو بھرے رکھتے ہیں جبکہ قبض سے بچانے میں بھی مدد دیتے ہیں، تاہم ان کی زیادہ مقدار کھانے سے گریز کرنا چاہیے، ورنہ پیاس زیادہ لگتی ہے۔پروٹین سے بھرپور غذا کو بھی سحری کا حصہ بنانا چاہیے جن میں انڈے، چکن، دہی اور دالیں وغیرہ قابل ذکر ہیں، پروٹینز روزے دار کو جسمانی طور پر متحرک رہنے کے ساتھ ساتھ جسمانی توانائی کو بھی برقرار رکھتے ہیں۔زیادہ پانی والی غذائیں اور مشروبات وغیرہ بھی سحری کا حصہ بنائے جاسکتے ہیں، کھیرے، ٹماٹر اور پانی وغیرہ دن بھر میں جسمانی طور پر سست نہیں ہونے دیتے۔ایسی غذاﺅں سے گریز کریں جو بہت زیادہ مرچوں یا مصالحے دار ہوں، ان کے استعمال سے سینے میں جلن اور بدہضمی کا خطرہ بڑھتا ہے۔سحری میں زیادہ چائے پینے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ کیفین سے جسم میں پانی کی سطح کم ہونے سے پیاس بڑھتی ہے۔اسی طرح نمکین غذاﺅں سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے جسم میں پانی کی کمی کا امکان پیدا ہوتا ہے۔زیادہ میٹھی اشیاء کھانے سے بھی گریز کرنا چاہیے کیونکہ یہ بہت تیزی سے ہضم ہوتی ہیں جس سے کچھ گھنٹے بعد ہی بھوک لگنے لگتی ہے۔ماہ رمضان میں ر گرمی کی شدت میں اضافے کے باعث روزانہ ڈھائی سے ساڑھے تین لیٹر پانی پینے کے باوجود جسم ڈی ہائیڈریشن کا شکار ہوسکتا ہے۔مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ اتنا پانی پینے کے باوجود جسم میں اس کی کمی کیا وجوہات ہیں ؟درحقیقت یہ آپ کی ہی چند عام عادات ہیں جو روزے کے دوران جسم کو پانی کی کمی کا شکار بناسکتی ہیں۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ موسم آپ کے جسم پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے، موسم میں آنے والی تبدیلی جسم میں پانی کی سطح پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اگر ارگرد کا ماحول بہت زیادہ خشک ہو تو یہ آپ کے پسینے پر اثر انداز ہوتا ہے اور دن بھر کے لیے جسم کو درکار پانی کی ضروریات پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے جتنا زیادہ پسینہ آئے گا اتنا ہی جسم میں پانی کم ہوگا جبکہ ہوا کے معیار میں تبدیلی نظام تنفس پر اثرانداز ہوتی ہے اور سانس کے ذریعے زیادہ پانی باہر خارج ہوکر ڈی ہائیڈریشن کا باعث بنتی ہے۔ اس سے بچنے کے لیے دن کا آغاز یا وقت سحر پر 8 اونس گلاس پانی ضرور پینا عادت بنائیں۔ہماری جلد میں جسم کا ایک عضو ہوتی ہے اور سورج کی تمازت اس پر اثرانداز ہوکر جسم میں پانی کی سطح کو کم کرتی ہے۔ عمر میں اضافہ بھی جلد کے لیے نمی کو متوازن رکھنے کے حوالے سے مشکلات کا شکار کردیتا ہے تو رمضان کے دوران سورج سے بچنا بہت ضروری ہوتا ہے۔
اجناس، پروٹین، پھلوں اور سبزیوں سے بھرپور غذا ایک صحت مند جسم کی کنجی ثابت ہوتی ہے، مگر یہ خاموشی سے دن بھر میں جسم میں پانی کی سطح پر اثرانداز بھی ہوتی ہے۔ پھل اور سبزیاں پانی سے بھرپور ہوتے ہیں خاص طور پر کھیرے ، تربوز اور خربوزے وغیرہ، ان کو رمضان میں اپنی غذا کا حصہ بناکر جسم میں پانی کی سطح کو بڑھانے میں مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔ غذا میں کاربوہائیڈریٹ کو باہر کرنے سے بھی جسم خاموشی سے ڈی ہائیڈریشن کا شکار ہونے لگتا ہے۔ دلیہ، اجناس پر مبنی پاستا اور براﺅن چاول کا استعمال اس حوالے سے مددگار ثابت ہوتا ہے۔اب یہ کام کے لیے ہو یا تفریح کے لیے، سفر کرنے کی عادت ڈی ہائیڈریشن کے خطرے کا باعث بن سکتی ہے، جب آپ معمول کے مطابق باہر گھومتے پھرتے ہیں تو آپ کی غذائی عادات سب سے پہلے متاثر ہوتی ہیں اور اکثر صحت کے لیے نقصان دہ اشیاءکو استعمال کیا جاتا ہے، اسی طرح پانی کا استعمال کم ہوجاتا ہے جوکہ رمضان میں ویسے ہی کافی کم ہوچکا ہوتا ہے۔متعدد ادویات پیشاب آور ہوتی ہیں اور آپ کے باتھ روم کے چکر زیادہ لگتے ہیں جس سے ڈی ہائیڈریشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ تو آپ کو جاننا چاہئے کہ آپ کونسی ادویات استعمال کررہے ہیں اور ہر بوتل پر موجود لیبل کے ذریعے ان کے سائیڈ ایفیکٹس سے آگاہی حاصل کریں۔تناﺅ گردوں کے غدود پر اثرانداز ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں تناﺅ کا باعث بننے والے ایک ہارمونایلڈوسٹیرون کی زیادہ مقدار خارج ہوتی ہے جو جسم میں پانی اور منرلز کی سطح کو ریگولیٹ کرتا ہے۔ اس ہارمون کی زیادہ خارج ہونے کا مطلب ہے کہ گردوں میں نمکیات کی سطح بڑھ رہی ہے جو جسم سے پیشاب کے راستے خارج ہوتی ہے اور پانی کی سطح گرنے لگتی ہے.اگر آپ افطار کے وقت جنک فوڈ یا پراسیس گوشت کا استعمال کرتے ہیں جن میں نمک کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے تو وہ موٹاپے یا ذیابطیس کے خطرات بڑھانے کے ساتھ جسم میں پانی کی سطح کم کرنے والی غذا بھی ہے۔ جب آپ کا جسم نمک سے بھرا ہوا ہوتا ہے تو پیشاب زیادہ آتا ہے اور ڈی ہائیڈریشن کا امکان بڑھ جاتا ہے، تو جنک فوڈ کی بجائے تازہ اشیاءسے افطار کو ترجیح دیں۔رمضان کے دوران ایک یا دو کپ کافی یا چائے کا استعمال تو ٹھیک ہے مگر ان مشروبات کی زیادہ مقدار زیادہ پیشاب کا باعث بنتی ہے اور جیسا بتایا جا چکا ہے کہ اس سے جسم میں موجود پانی کی زیادہ مقدار خارج ہوجاتی ہے۔ تو اگر رمضان میں چائے یا کافی کا استمعال کم کرکے لیموں پانی کا زیادہ استعمال کریں تو یہ ڈی ہائیڈریشن سے بچاﺅ کے لیے بہتر ہے بلکہ روزے کے دوران پیاس کا احساس بھی زیادہ نہیں ستائے گا۔