[wpc-weather id=””/]
اب دیکھا جائے تو 2013 میں میاں نواز شریف کے بارے میں بھی یہی خیالات تھے کہ انقلاب برپا کرے گا مگر جب وہ برسر اقتدار آئے تو وہی لوگ ان کے مخالف ہوگئے اور ان کو کرپٹ کہا جانے لگا۔پیپلز پارٹی کے دور اقتدار سے قبل پیپلز پارٹی کے بارے میں ایسا جانا جاتا تھا مگر جب وہ برسر اقتدار آئی تو وہی لوگ تنقید کرنے لگے۔جب ان لوگوں کے پاس اختیارات نہ تھے تو یہ لوگ سلجھے ہوئے معلوم ہوتے تھے مگر جونہی ان کو آپ نے اختیارات سے نوازا تو ان کی پالیسیاں دیکھ کر خود ہی ان کے خلاف ہوگئے۔تنقید کرنے والوں میں پہلی صف میں نظر آنے لگے۔اب آپ مجھے سلجھا ہوا لڑکا کہہ رہے ہیں حالانکہ اس کے پیچھے بھی کہانی کچھ ایسی ہی ہے کہ اس وقت مجھے معلوم ہے کہ میرا والد ایک کسان ہے اور کسانوں کی خستہ حالی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔میں اکیلا بھائی ہوں اور مجھے چاہیے کہ میں باپ کا سہارا بنوں نہ کہ باپ کے لیے ذلت کا سامان پیدا کروں۔مجھے معلوم ہے کہ میرا والد اتنے وسائل نہیں رکھتا کہ مجھے عیاشی کروا سکے اور نہ ہی میں عیاشی کے لیے پیدا ہوا ہوں مجھے اتنے سال جس نے مصائب جھیل کر میری پرورش کی آج میں اس کی تربیت پر سوالیہ نشان لگواؤں تو مجھے سلجھا ہوا لڑکا کون کہے۔
اب اگر مجھے والد صاحب لاڈ پیار سے ہر منہ سے مانگی گئی چیز میرے سامنے آکر رکھتے تو پھر میرے نخرے بھی آسمانوں پر ہوتے اور میں اپنے خاندان کے دیگر نوابوں کی طرح بلکہ ان کا بھی سالار ہوتا۔اس کی باتوں میں سچائی اس کی اسی دلیل میں تھی کہ جو انہوں نے سیاستدانوں کے بارے میں بیان کی تھی۔ہم یہ نہیں جانتے کہ اصل میں حکومتی معاملات کون صحیح طریقے سے چلا سکتا ہے تبھی جب پی پی پی برسر اقتدار ہوتی ہے تو نواز شریف اچھا لگتا ہے جب نواز حکومت ہوتی ہے تو ہمیں کپتان کے سوا سب کرپٹ معلوم ہوتے ہیں جب کپتان کی تبدیلی سرکار کا وقت ہوتا ہے تو مہنگائی،بے روزگاری اور غربت ہماری آنکھیں کھول کر رکھ دیتی ہے۔المختصر یہ کہ جس کے پاس بھی اختیارات ہوتے ہیں وہ ان کا استعمال یوں کرتا ہے کہ عوام کو ان کی مخالفت کرنا پڑتی ہے اور جسے ان اختیارات سے دور رکھا جاتا ہے وہ ہمیشہ ہی سلجھے ہوا معلوم ہوتا ہے مگر سب کو پرکھنا چاہیے کہ اس پن کی اصل وجہ کیا ہے۔کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ
غالباً تخت پہ جنات کا سایہ ہوگا
جو بھی آتا ہے وعدوں سے مکر جاتا ہے








