counter easy hit

جس کی لاٹھی اس کی بھینس

قارئین کرام ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں کہ جس کی لاٹھی اسی کی بھینس ہوتی ہے۔آج جس زاویے سے بھی اس پر نظر دوڑائی جائے یہ حقیقت ہی معلوم ہوگا۔جی ہاں بالکل جس کے پاس طاقت ہوتی ہے وہ تکبر میں دھت ہو جاتا ہے۔ایسی ہی مثال کچھ پاکستانی سیاستدانوں کی بھی ہے کہ جو بیس دن عوام کے حقیقی لیڈر بن جاتے ہیں یعنی بات ان فصلی بٹیروں کی کررہا ہوں کہ جو الیکشن سے قبل بیس دن عوام میں گھل مل جاتے ہیں۔تین تین چار چار سال قبل وفات پانے والے افراد کے گھر جانا فاتحہ خوانی کرنا اور ہمدردی کا اظہار کرنا۔عوام سے سیلفیاں بنوانا اور بیش بہا محبت کا اظہار کرنا۔لیکن جونہی الیکشن میں کامیاب ہوتے ہیں ان کے آرام کرنے کے دن شروع ہو جاتے ہیں اور بیس دن کی تھکاوٹ صرف پانچ سال کے مختصر دورانیے میں دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہاں اگر کوئی کام کریں تو ایک ایک منصوبے کے بیش بہا افتتاح کرنا بھی ان کا نصب العین ہوتا ہے۔پاکستانی قوم کو چاہیے کہ ان با ضمیر با کردار اور نڈر عوامی خدمتگاروں کو پاکستان کا سب سے بڑا ایوارڈ دینا چاہیے کہ جو پانچ سال کا عرصہ اسمبلی میں خاموش رہ کر گزارتے ہیں۔ان کو تو ہر ہفتے اکیس توپوں کی سلامی دی جانی چاہیے کہ پانچ سال اسمبلی میں خاموش رہنا یہ اپنا فرض سمجھتے ہیں۔معقولہ آپ نے بھی بہت بار سنا ہوگا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔اب ان سیاستدانوں کے ہاتھ میں لاٹھی ہے تو خوشامدی اور ٹاوٹ مافیا بھی بے شک ان کا ہی سرگرم ہوگا۔وہ عوام کہ جو ان کے لیے دن رات ترانے گایا کرتی تھی وہ اب اگلے پانچ سال انتظار ہی کرے۔
جب پاکستان تحریک انصاف کے کسی فرد سے ملک کی حالت کا تذکرہ کیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ پہلی حکومتوں نے کیا کردیا۔میرا تعلق پنجاب کے پسماندہ ترین ضلع جھنگ سے ہے اور اگر انہی بھائیوں کی بات پر ہی غور کیا جائے تو حیرانی اس بات کی ہے کہ جو اب ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور دیگر سیاستدان ہیں وہ پہلے بھی مختلف جماعتوں سے انتخابات میں حصہ لے کر کامیاب ہو چکے ہیں اور وہ ضلع جھنگ کہ ٹوبہ،فیصل آباد اور چنیوٹ جس کا حصہ تھے وہ 1926 سے اب تک ضلع ہی ہے۔بلکہ اس ضلع سے بھی بہت سے علاقے جدا ہوچکے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جو احباب دیگر جماعتوں سے انتخابات میں حصہ لے کر رکن قومی یا صوبائی اسمبلی منتخب ہو کر بھی کچھ نہ کرسکے وہ اب تبدیلی سرکار کے ساتھ وفاداری کر پائیں گے۔کیا وہ عوام کی امیدوں پر پورا اتر سکیں گے۔
ان سوالات کا جواب تو وقت ہی دے سکتا ہے۔لیکن ہاں میں جھنگ سمیت پاکستان بھر کے سیاستدانوں کو سلام پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے عوام کی خاطر کبھی اپنے لبوں کو زحمت نہیں دی۔ان کا مقصد الیکشن کے دنوں میں آنا اور بس وعدے کر کے رفو چکر ہونا ہی ہے۔کاش کہ کوئی اس ملک کی آواز بنے کاش کہ جس پاکستان کی زمین سے نکلنے والا پانی پی کر یہ جوان ہوئے اس سے یہ وفا کر پاتے کاش کہ یہاں کی عوام کہ جس نے انہیں ووٹ دے دے کر اپنی امیدیں وابستہ کیں ان کے بارے میں سوچیں۔میں جھنگ کے لیے اپنی ادنی سوچ کا اظہار کچھ یوں کرنا چاہوں گا کہ
یا رب میرے جھنگ تے کرم چا کر،کر مخلص لوگ عطا اے
جو دیون درس بیداری دا کرن اس تے جان فدا اے
اگے ہوئے اس تے ظلم بہوں ہوئی ہر تحصیل جدا اے
نہ ایدھی حالت بدل سکی ساقی ہوئی ہر چیز تباہ اے
میرے جھنگ کے عظیم سیاستدانوں کچھ سوچو اپنے لیے اپنے اس جھنگ کی خاطر۔آپ کے سامنے آپ کا جھنگ تڑپ رہا ہے اور آپ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے ہو۔یہ جو طاقت آپ کے پاس موجود ہے مت بھولیں کہ عوام کی وجہ سے ہے۔جھنگ کے باشندگان نے ہی آپ کو اس قابل بنایا ہے
اپنے ملک پر رحم کرو خدا کے لیے یہ ملک ہم سب کا ہے ہم سب نے یہیں رہنا ہے۔
عوام نے آپ کو اس لیے منتخب نہیں کیا کہ آپ اپنی اور اپنے چند چمچوں اور پالشیوں کی حالت سدھار سکیں بلکہ عوام روزگار چاہتی ہے۔عوام مہنگائی میں کمی چاہتی ہے۔جناب اگر آپ کو اسمبلی میں کچھ کہتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے یا ہاں اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ کہیں مائیک سے بجلی کا جھٹکا نہ لگ جائے تو وزیر سائنس سے ہدایات لے کر ہی بول دیں وہ آپ کی یہ پریشانی بھی دور کردیں گے مگر ہاں اگر ویسے کچھ بولنا مناسب نہیں سمجھتے تو آپ کی مرضی مگر میری ادنی سی گزارش ہے کہ آج تو آپ کہہ رہے ہیں کہ پہلے والوں نے کیا کیا۔اب اگلی باری آپ کی بھی ہوسکتی ہے سرکار اب عوام بیدار ہو چکی ہے۔اب آپ کے ہاتھ میں لاٹھی بھی ہے اور بھینس بھی آپ ہی کی ہے مگر ہاں اگر تھوڑی سی بھی گڑبڑ ہوگئی تو اگلی دفعہ بھینس رہے گی نہ لاٹھی۔۔۔۔۔۔۔