counter easy hit

بجٹ اور سیاست برائے تنقید

نئے مالیاتی سال کےلیے حکومت نے 51 کھرب 32 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا ہے جس میں بہت سے منصوبے عوامی فلاح و بہبود کے ہیں تو کچھ نئے ٹیکسز لگا کر قومی خزانہ بھرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک عام آدمی یہ بات بہت اچھی طرح جان چکا ہے کہ جو بجٹ پیش کیا جاتا ہے اس سے زیادہ چھپایا جاتا ہے۔ بجٹ پیش کرتے وقت جو تخمینے پیش کیے جاتے ہیں، ان کا بنیادی مقصد صرف تالیاں بجوانا ہوتا ہے۔

قومی اسمبل کا بجٹ سیشن ہر سال مخصوص مناظر لیے ہوتا ہے۔ وزیر خزانہ کے بقول وہ ملکی تاریخ کا بہترین بجٹ پیش کرنے کا دعویٰ کررہے ہوتے ہیں، وزیر اعظم بہترین بجٹ پیش کرنے پر مبارکباد دینے کےلیے بیان تیار کرکے بیٹھے ہوتے ہیں جب کہ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی نامنظور، نامنظور کے نعرے لگاتے ہوئے، بجٹ کو غریب عوام پر مہنگائی کا بم وغیرہ کہتے ہوئے بجٹ دستاویز کی کاپیاں پھاڑنے کی روایت دہرا رہے ہوتے ہیں۔ اس سب کے دوران وزیر خزانہ کے ڈائس کا گھیراؤ کرنے کی رسم بھی ادا کی جاتی ہے۔ اس پوری ہنگامہ آرائی کا کبھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا، نہ کبھی وزیر خزانہ نے تسلیم کیا کہ بجٹ میں کچھ کمیاں ہیں اور نہ کبھی حزب اختلاف کی پارٹی نے مانا کہ یہ عوام دوست بجٹ ہے۔

یہ مناظر جو ہر سال بجٹ کے موقع پر قومی اسمبلی میں نظر آتے ہیں، انہیں دیکھتے ہوئے جب ہم یہ یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند میں انگریز کا دیا ہوا نظام کام کررہا ہے جسے مدر آف ڈیموکریسی بھی کہا جاتا ہے تو ہمارے دل میں بھی ’’خوامخواہ‘‘ یہ حسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش یہاں بھی برطانوی پارلیمنٹ کی طرح کے نظام کا دور دورہ ہو۔ بجٹ پر تنقید کرنے والا رکن اسمبلی متوازی بجٹ بنا کر لایا ہو۔ برطانوی پارلیمنٹ میں قانون سازی کرنے کےلیے ہاؤس آف کامنز میں کئی کئی دن پر محیط نشستیں ہوتی ہیں بھلے وہ بل منظوری کےلیے حکومتی پارٹی کی طرف سے پیش کیا گیا ہو یا حزب اختلاف کی طرف سے۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کو آئینی طور پر اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ملک کی بہتری کےلیے حکومت کے متوازی ایک بجٹ مشترکہ طور پر اسمبلی میں اسی دن پیش کریں گی، چاہے اس میں سے حکومتی پارٹی کوئی تجویز منظور کرتی ہے یا نہیں۔ حزب اختلاف کی طرف سے اگر متوازی بجٹ پیش نہیں کیا جائے گا تو پھر انہیں بجٹ پر احتجاج کا حق بھی نہیں ہوگا۔ قوی امید ہے کہ اس سے سیاست برائے تنقید میں خاطر خواہ کمی آئے گی اور کچھ ہی سال میں حکومت، عوام الناس کےلیے حقیقی طور پر ایک بہترین بجٹ پیش کرنے میں کامیاب ہوسکے گی۔

پاکستان میں حزب اختلاف کے اراکین کی اسمبلی میں پہلی ترجیح شور شرابا کرنا اور اپنی پارٹی کو مظلوم دکھانا ہوتا ہے جس کے بعد اگر کبھی دل میں آئے تو کوئی بل قانون سازی کےلیے پیش کردیا جاتا ہے جسے حکومتی اراکین بغیر پڑھے اپنے لیڈر کے ایک اشارے پر مسترد کرتے ہوئے اپنی عددی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جو بل حکومتی بینچ سے اسپیکر کو منظوری کےلیے بھیجا جائے، اس پر حکومتی اراکین اسمبلی بغیر پڑھے دستخط کردیتے ہیں اور بعد میں جب اس قانون کی بابت ان سے استفسار کیا جاتا ہے تو بغیر شرمندہ ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے تو فلاں بل پڑھا ہی نہیں، جیسا کہ ماضی قریب میں ختم نبوت کے قانون میں ترمیم والی شق پر اراکین اسمبلی کا مؤقف نظر بھی آیا۔

حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے ممبران شاید اس خوف سے حکومت کو صحیح مشورے نہیں دیتے کہ اگر واقعتاً ہمارے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے حکومت نے اچھے کام کرنا شروع کردیئے تو ہم اگلے الیکشن میں عوام کو نئے سرے سے کونسے سہانے خواب دکھا کر ووٹ کی التجا کریں گے۔

پاکستانی سیاستدانوں سے جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ آپ ایم این اے یا ایم پی اے بن کر کیا کریں گے تو اکثریت کا جواب ہوتا ہے کہ ہم اسمبلی میں عوامی خدمت کےلیے جارہے ہیں اور علاقے میں ترقیاتی کام کروائیں گے۔ ایسی جگہ جہاں پر بیٹھ کر قانون سازی کرنا ان منتخب نمائندوں کا کام ہے وہیں یہ لوگ سڑکوں، نالیوں کی تعمیر و مرمت کا سوچ رہے ہوتے ہیں اور مختلف کمیٹیوں سے فنڈ ریلیز کروانے کےلیے منت سماجت سے کام چلا رہے ہوتے ہیں کیوں کہ ان اراکین اسمبلی کا نعرہ ہے ’’ہماری حکومت ہماری مرضی۔‘‘ عوامی فلاح و بہبود کے کام جو دراصل بلدیاتی نمائندوں کے کرنے کے ہیں، وہ عملاً بے کار بیٹھے ہیں اور ہر مہینے ایک مخصوص رقم تنخواہ کی صورت میں وصول بھی کررہے ہیں۔

ان سیاستدانوں کی آپسی لڑائیوں کے چکر میں نقصان سب سے زیادہ عام لوگوں کا ہورہا ہے جو غریب سے غریب تر ہورہے ہیں۔