counter easy hit

عمران حکومت کی خلاف اپوزیشن کی ہر محاذ پر شکست، کپتان کے لیے بڑی خوشخبری آ گئی

اسلام آباد (ویب ڈیسک) ملکی سیاسی صورتحال کے پیش نظر اپوزیشن جماعتوں نے متحد ہو کر حکومت کو ٹف ٹائم کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے ، اس اتحاد میں سب سے زیادہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اتحاد اور نواز شریف اور آصف علی زرداری کے مابین ملاقات کی کوششیں کی جا رہی ہیں,
جس میں جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔تاہم اب یہ خبر سامنے آئی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر چلنے پر پاکستان پیپلز پارٹی دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے اندر بھی اس اتحاد کو لے کر کئی تحفظات ہائے جاتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی کے بڑے دھڑے نےمسلم لیگ ن کے ساتھ ہونے والے ممکنہ اتحاد کی مخالفت کر دی ہے ۔پارٹی کے اکثریتی دھڑے نے پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلٰی قیادت کو واضح پیغام دیا ہے کہ نوازشریف کے ساتھ اتحاد کرنے کی بجائے کُھل کر اپوزیشن کی جائے کیونکہ ایسا کرنے سے پارٹی کو سیاسی فائدہ ہو گا۔نوازشریف کے ساتھ اتحاد سے وقتی طور پر تو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن آئندہ انتخابات میں پارٹی کو اس فیصلے سے نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ اکثریتی دھڑے کا موقف ہے کہ پنجاب، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ہمیں پہلے ہی مفاہمت کی سیاست کی وجہ سے اور اپوزیشن کا اصل کردار ادا نہ کرنے کی وجہ سے نقصان اُٹھانا پڑا ۔ اگرپیپلزپارٹی اور ن لیگ اتحاد بناتی ہیں تو اسمبلی کے اندر اتنا بڑا نقصان نہیں ہو گا لیکن عوامی سطح پر غلط تاثر جائے گا اور اگر عوامی سطح پر چلنے والی ہر تحریک کومسلم لیگ ن لیگ ہائی جیک کر لے گی کیونکہ,
پنجاب میں مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی سے بھی زیادہ مضبوط ہے ۔پارٹی میں موجود اتحاد مخالف دھڑے نے کہا کہ اگر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوگئی تو اس سے پیپلزپارٹی سے زیادہ ن لیگ کو فائدہ ہو گا ۔ مسلم لیگ ن نہ صرف پیپلزپارٹی کا کندھا استعمال کر کے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے بلکہ اس سے پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچنے کا بھی خدشہ ہے۔یہی نہیں پیپلزپارٹی کے کچھ اہم رہنمائوں کا یہ خیال ہے کہ آصف زرداری اور نوازشریف میں ملاقات ضرور ہو اور اگر اتحاد بنے تو پھر اس کی سربراہی آصف زرداری یا بلاول کے پاس ہو ۔پیپلزپارٹی کے اندر یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ صرف سیاسی دبائو کی حد تک اسمبلی کے اندر پریشر گروپ بنایا جائے ۔دوسری جانب مسلم لیگ ن میں بھی اس اتحاد کو لے کر کئی تحفظات پائے جاتے ہیں، نواز شریف کے قریبی ساتھیوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے اور موقف اپنایا ہے کہ عام انتخابات کے بعد سے مسلم لیگ ن کی جانب سے دوستی کا ہاتھ بڑھائے جانے کے باوجود پیپلز پارٹی پیشکش کو مسترد کرتی آئی ہے۔وزیراعظم کے انتخاب میں بھی پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ ن کا ساتھ نہیں دیا تھا، اب اتحاد کی باتوں کے پیچھے ضرور پیپلز پارٹی کےکچھ مخفی مقاصد ہیں ، جبکہ نیب حراست میں موجود شہباز شریف نے بھی پارٹی قاید نواز شریف کو پیپلز پارٹی سے اتحاد نہ کرنے کا ہی پیغام بھجوایا ہے۔ پارٹی رہنمائوں کا خیال ہے کہ ہمارے ساتھ جو ہونا تھا وہ ہو گیا ہےلہٰذا اب اس سب کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اب ہمیں خود ہی اپنی لڑائی لڑنا ہو گی۔ نواز شریف کو مشورہ دیا گیا کہ اس وقت حالات ٹھیک نہیں ہے، آپ کے اوپر مقدمات ہیں لہٰذا ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہئیے۔