counter easy hit

ایک دن بھمبور میوزیم میں

کراچی سے ٹھٹہ کی طرف جائیں تو یہ بتانے والا کوئی نہیں کہ دیبل کدھر ہے لیکن بھمبور سے سب واقف ہیں۔ نیشنل ہائی وے پر ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر دھابیجی اور گھارو کے درمیان دیبل کی قدیم بندرگاہ کے آثار اور میوزیم ہے۔

14089244_1090345691052875_7181467650447684470_n میوزیم کے باہر ایک بورڈ پر یہ معلومات درج ہیں
“1958ء میں کھدائی کا سلسلہ شروع ہوا، جس سے یہاں تین ادوار کے آثار ملے ہیں۔ سیتھین پارتھی جو پہلی صدی قبل مسیح سے دوسری صدی ق م، ہندو اور بدھ دوسری سے آٹھویں صدی۔ مسلمان آٹھویں سے تیرہویں صدی۔ اس کے بعد سندھ نے اپنا رخ بدل لیا اور شہر کی اہمیت ختم ہو گئی۔ رفتہ رفتہ شہر ملبے کا ڈھیر بن گیا۔”

بھمبور میوزیم میں نوادرات زمانی ترتیب سے رکھے ہوئے ہیں۔ راہنمائی کے لیے ماڈلز، سٹکرز اور عملہ موجود ہے۔ میوزیم میں داخل ہوں تو عین وسط میں بھمبور کا نقشہ ہے۔ بائیں طرف کھدائی کے تمام مراحل کو بڑے دلکش انداز میں ایک ماڈل بنا کر ڈسپلے کیا گیا ہے۔ گائیڈ جوکھیو ظہیر احمد کے بقول اب تک شہر کا چالیس فی صد حصے کی اٹھائیس فٹ تک کھدائی ہوئی ہے جس سے دوسری سے تیرہویں صدی عیسوی تک کے نوادرات ملے ہیں۔ کھدائی اطالوی اور فرانسیسی ماہرین کی نگرانی میں ہوئی۔

Bhambore 026میوزیم میں مٹی کے کچے اور پکے برتن، پتھر، سلیں، سکے، باٹ، زیور، عام استعمال کی اشیا اور اوزار شامل ہیں۔ یہ اشیا مٹی، پتھر، لوہے، تانبے، ہڈی اور ہاتھی دانت کی بنی ہوئی ہیں۔ رنگین اور منقش ظروف پر بیل بوٹے، کنول، بطخ، مچھلی، سانپ، مور، انسان، ہاتھی اور سورج وغیرہ کے نقش بنے ہوئے ہیں۔

14053975_1090345097719601_4567532196607747846_nمٹی کا بنا واٹر کولر جس کا نچلا حصہ ریت میں دھنسا رہتا تھا تاکہ پانی ٹھنڈا رہے۔ ایک فریج نما مٹی کا برتن جس میں پانی بھر کر ہنڈیا اس کے اوپر رکھ دی جاتی تاکہ اگلے دن تک سالن خراب نہ ہو اور چیونٹیوں وغیرہ سے محفوظ رہے۔

14088619_1090345067719604_6126119893093629951_nبھمبور میوزیم کی یہ انفرادیت ہے کہ اس میں شیشے کی اشیا ہیں۔ جن میں عطر کی شیشیاں، شمعدان، آبخورے، صراحی نما بوتیلں شامل ہیں۔ جو اس چیز کی مظہر ہیں کہ بھمبور عالمی روٹ تھا کیونکہ آٹھ سو سال پہلےتک ہندوستان میں شیشے کا کوئی کارخانہ نہیں تھا۔ یہاں سندھی اور ہندی اشیا کے ساتھ ساتھ یونانی، چینی، ایرانی اور شامی اشیا بھی دکھائی دیتی ہیں۔ ان میں سے کچھ پر ناگری اور کوفی زبانوں میں تحریریں موجود ہیں۔

14064166_1090345987719512_5327377174121129527_nمندر کی مورت حسن اور دلکشی کی علامت سمجھی جاتی ہے لیکن بھنبور میوزیم میں بہت کم مورتیاں قابلِ دید ہیں۔ ان کی سائز بھی چھوٹے ہیں۔ دیبل کے مندر سے ملنے والا شیو لنگھم اور یونی بھی میوزیم میں موجود ہے۔ پتھر کے مجسموں کے ٹکڑے اور پتھروں کے گولے بھی میوزیم کی زینت ہیں۔

14045596_1090346207719490_8727808457550289359_nجنوبی ایشیاء کی پہلی مسجد سے ملنے والی سنگ مرمر کی ایک تختی بھی یہاں پڑی ہوئی ہے جس پر خطِ کوفی میں بغیر اعراب کے یہ قرانی آیت لکھی ہے: انما یعمر مساجد اللہ من امن باللہ والیوم الاخر و اقام الصلاۃ اتی الزکاۃ ولم یخش الا اللہ فعسی اولئک ان یکونو من المھتدین

14063944_1090344837719627_4366942340034664512_nایک ماڈل میں دیبل فورٹ اور دریائے سندھ میں اموی منجنیق بردار بحری جہاز دکھایا گیا ہے۔ میوزیم میں محمد بن قاسم کی کوئی تصویر وغیرہ نہیں ہے۔ نہ ہی یہاں کوئی ایسی چیز ہے جس کی سسی سے نسبت ہو۔ البتہ سرمے کی سلائیاں، کنگیاں، کنگن، رنگ برنگے ہار، زیوارات اور ٹوٹی ہوئی چوڑیاں دیکھ کر دھیان سسی کی طرف ضرور جاتا ہے۔

14055151_1090345334386244_1010302756236622287_n (1)

49719974میوزیم سے باہر نکلیں تو صحن میں ایک منجینق نصب ہے۔ یہ اس وقت کی سب سے اعلی حربی ہتھیار تھا جسے سنگ باری کرنے اور قلعوں کی دیواروں میں شگاف ڈالنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ محمد بن قاسم اپنے ساتھ کئی چھوٹی منجنیقیوں کے علاوہ ایک بڑی منجنیق عروسک بھی لایا تھا۔ جسے پانچ سو آدمی آپریٹ کرتے تھے۔ دیبل کے مندر کا جھنڈا منجنیق سے گرایا گیا جو دیبل کی فتح کا سبب بنا۔