counter easy hit

درود شریف ۔۔۔۔ ذریعہ سعادت دارین

Durood Shareef

Durood Shareef

تحریر : علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
عَنْ اَنْسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ صَلوٰةً وَاحِدَ ةًصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ عَشْرَ صَلَوَاتٍ وَّ حُطَّتْ عَنْہُ عَشْرُ خَطِیَّاتٍ وَّ رُفِعَتْ لَہ عَشْرُ دَرَجَاتً۔ ترجمہ:” حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے مجھ پر ایک بار درود شریف پڑھا تو اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ،اسکے دس گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں اور اس کے دس درجے بلند کر دئے جاتے ہیں ۔(نسائی شریف) صلوٰة یعنی درود شریف کی حقیقت:لفظ ”صلوٰة” لغت عرب اور شرع شریف میں کئی معنوں میں مستعمل ہے۔ مثلاً رحمت و برکت ، تعریف ،دعاء اور نماز وغیرھا ۔جب ”صلوٰة” کا لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو تو اس کا معنی رحمت و برکت عطا فرمانا اور تعریف فرمانا ہے ۔بخاری شریف میں حضرت ابو عالیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :فَھِیَ مِنْہُ عَزَّوَجَلَّ ثَنَاؤُہْ عَلَیْہِ عِنْدَ الْمَلَائِکَةِ وَ تَعْظِیْمُہ۔یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ”صلوٰة ” (درود شریف ) کا معنی فرشتوں کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کرنا ہے اور آپ کی عزت و شان کو بڑھانا ہے ۔ لیکن جب لفظ صلوٰة بندوں کی طرف منسوب ہوتا ہے تو پھر اس کا معنی اللہ تعالیٰ سے نزول رحمت و برکت کی دعا ہے ۔ نماز کو بھی شرع شریف میں ”صلوٰة ” کہا جاتا ہے ،اس لئے کہ نماز میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت و برکت کا نزول فرماتا ہے اور بندہ اللہ تعالیٰ سے نزول رحمت و برکت کی دعا کرتا ہے یا اسلئے کہ درود شریف نماز کا ایک جزء (حصہ) ہے اور بسا اوقات کل کو جزء کا نام دے دیا جاتا ہے۔

درود شریف ابراہیمی اور دیگر کلمات درود شریف:اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود اور سلام بھیجنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ نماز کے اندر سلام کیلئے ”اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ ”کے کلمات اور درود کیلئے درود ابراہیمی کی تعلیم دی گئی ہے ۔لہٰذا نماز کے اندر صلوٰة و سلام کے یہ کلمات مسنون ہیں ۔لیکن نماز سے باہر ان کلمات کی پابندی ضروری نہیں ۔جیسا کہ صحابہ کرام سے لیکر آج تک سب مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام مبارک کے ساتھ ”صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم” کے کلمات درود شریف استعمال کرتے آئے ہیں اور احادیث مبارک میں درود ابراہیمی کے علاوہ دیگر الفاظ میں بھی درود و سلام کے کلمات وارد ہوئے ہیں ۔جیسا کہ امام شہاب الدین خفاجی فرماتے ہیں :کَانُوْا یَقُوْلُوْنَ فِیْ تَحِیَّتِہ الصَّلوٰةُ وَ السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ ۔(شفا قاضی عیاض صفحہ454/3) یعنی صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں تحفۂ سلام پیش کرنے کیلئے عرض کیا کرتے تھے ۔اَلصَّلوٰةُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ ۔اے اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول!(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)آپ پر (اللہ کی طرف سے ) صلوة و سلام نازل ہو۔اس مختصر گفتگو سے ان لوگوں کا مغالطہ ختم ہو گیا جو کہتے ہیں کہ درود شریف صرف درود ابراہیمی ہی ہے ۔اس مسئلہ کو مزید واضح کرنے کیلئے عرض کرتا ہوں کہ جس طرح نماز میں ثناء اور حمد کیلئے مخصوص الفاظ ہیں ،لیکن نماز سے باہر اللہ تعالیٰ کی ثناء اور حمد کے مخصوص الفاظ یا مخصوص زبان کی پابندی نہیں ،اس طرح نماز سے باہر درود شریف کیلئے بھی مخصوص الفاظ یا عربی زبان کی پابندی نہیں ۔مسلمان اردو ،فارسی اور انگریزی زبان میں بھی نبی علیہ السلام کی بارگاہ میں درود و سلام عرض کر سکتے ہیں ۔جیسا کہ ہر زمانے میں علماء امت ایسا کرتے رہے ہیں۔

درود شریف کے فضائل و برکات:درود شریف کے فضائل و برکات بے شمار ہیں ۔درود شریف کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کی برکت سے بندوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قرب حاصل ہوتا ہے ۔جیسا کہ حدیث بالا سے ظاہر ہے ۔ترمذی میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اَوْلَی النَّاسَ بِیْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَکْثَرُھُمْ عَلَیَّ صَلٰوةً۔یعنی قیامت کے روز مجھ سے سب سے زیادہ قریب یا میری شفاعت کا سب سے زیادہ حقدار وہ ہو گا ۔جس نے مجھ پر سب سے زیادہ درود شریف پڑھا ہو گا۔ ابو دائود شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ؛مَا مِنْ اَحَدٍ یُّسَلِّمُ عَلَیَّ اِلَّا رَدَّ اللّٰہُ عَلَیَّ رُوْحِیْ فَاَرُدَّ عَلَیْہِ السَّلَام۔یعنی جو بھی مجھے سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح کو اسکی طرف متوجہ فرمادیتا ہے حتیٰ کہ میں اس کا جواب دیتا ہوں۔ سبحان اللہ !اس سے بڑھ کر امتی کی سعادت کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حبیب حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلام پیش کرنے والوں کو سلام کا جواب خود ارشاد فرماتے ہیں ۔ترمذی شریف میں ہے ۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں ” میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ پر بہت زیادہ درود شریف پڑھتا ہوں تو کتنا درود شریف مقرر کروں ۔فرمایا جتنا چاہو ۔میں نے کہا چہارم دن رات کا حصہ ؟ فرمایا جتنا چاہو لیکن اگر درود شریف بڑھا دو تو تمہارے لئے بہتر ین ہے، میں نے کہا آدھا حصہ؟ فرمایا جتنا چاہو لیکن اگر درود شریف بڑھا دو تو تمہارے لئے بہتر ہے ، میں نے عرض کیا دو تہائی حصہ؟ فرمایا جتنا چاہو لیکن اگر درود شریف بڑھا دو تو تمہارے لئے بہتر ہے ،میں نے عرض کیا میں سار ا دن رات در ود شریف ہی پڑھوں گا۔ فرمایا ۔اِذًا یَّکْفِیْ ھَمَّکَ وَ یُکَفِّرُلَکَ ذَنْبِکَ۔”تب تمہارے غموں کو کافی ہو گا اور تمہارے گناہ مٹا دے گا۔” ترمذی شریف میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔”بڑا کنجوس وہ شخص ہے ،جسکے سامنے میرا ذکر ہو اور وہ مجھ پر درود شریف نہ بھیجے۔” ترمذی شریف میں ہی حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” دعا آسمان اور زمین کے درمیان ٹھہری رہتی ہے ۔اس سے کچھ اوپر آسمان کی طرف نہیں بڑھتی ،جب تک اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود شریف نہ بھیجو۔”

درود شریف سے متعلقہ چند مسائل:درود شریف باوضو ہو کر پوری توجہ اور نہایت ادب کے ساتھ پڑھنا چاہیے ، اگر چہ شرع شریف میں وضو کے بغیر بھی درود شریف پڑھنا جائز ہے ۔ درود شریف عمر میں ایک بار فرض عین ہے ۔اور ہر مجلس میں جہاں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام کیا جائے پہلی بار درود شریف پڑھنا واجب ہے اور اس کے بعد ہر بار درود شریف پڑھنا مستحب ہے ۔اس طرح نام اقدس لکھتے وقت درود شریف لکھنا ضروری ہے اور بعض علماء کے نزدیک واجب ہے اور درود شریف کی جگہ”ص یا عم یا صلعم” وغیرہ مخفف کر کے لکھنا سخت حرام ہے ۔فرض نماز کے آخری قعدہ میں درود شریف سنت مؤکدہ اور بعض فقہاء کے نزدیک واجب ہے اور نفل نماز کے پہلے قعدہ میں بھی درود شریف سنت ہے ۔کب درود شریف مستحب ہے؟:نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :ہر وہ کلام جسے اللہ کے نام اور مجھ پر درود شریف سے شروع نہ کیا جائے تو وہ ناقص اور برکت سے خالی ہے ۔(جلاء الافہام لابن قیم) اس حدیث کی رو سے ہر نیک کام سے پہلے درود شریف پڑھنا ،ذریعہ برکت ہے ۔فقہاء اسلام نے ان مقامات پر درود شریف کے استحباب کا ذکر کیا ہے۔ جمعہ کے دن ،جمعہ کی رات ،مسجد میں آتے اور جاتے وقت ،گھر میں داخل ہوتے وقت ،اذان کے وقت ،روضۂ رسول ۖ پر حاضری کے وقت، صفا اور مروہ پر ، خطبہ میں ،دعا سے پہلے اور بعد ،احرام باندھنے کے بعد ،ملاقات اور وداع کے وقت، وضو کے وقت ،وعظ سے پہلے اور بعد ،تعلیم و تعلم کے وقت خصوصاً حدیث کی تعلیم کے وقت ،منگنی اور نکاح کے وقت ،اذان میں اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً ا رَّسُوْلَ اللّٰہ سننے پر ،ہر مجلس میں کم از کم ایک بار، جب کوئی چیز بھول جائے ،مسئلہ پوچھتے وقت ،فتویٰ لکھتے وقت اور تصنیف کے وقت۔

نبی کریم علیہ السلام حاضر و ناظر ہیں اور ہر جگہ سے خود درود شریف سنتے ہیں :اہل سنت و جماعت صیغۂ خطاب کے ساتھ دور و نزدیک سے بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صلوٰة و سلام عرض کرتے ہیں ۔ کیوں کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نورِ نبوت کے ذریعے ساری کائنات کا مشاہدہ فرما رہے ہیں ۔جبکہ کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ شیطان کو تو کائنات کے ذرے ذرے کا علم حاصل ہے ،لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیوار کے پیچھے کا بھی علم نہیں ۔ لہٰذا یہ لوگ اَلصَّلوٰةُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ ۔ (اے اللہ کے رسول ! آپ پر درود و سلام ہو) کو ناجائز بلکہ شرک قرار دیتے ہیں ۔لہٰذاہم یہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حاضر و ناظر ہونے اور آپ کی بارگاہ میں صیغۂ خطاب کے ساتھ درود شریف بھیجنے کے مختصردلائل پیش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا۔ ”بے شک ہم نے آپ کو شاہد (مشاہدہ کرنے والا) بنا کر بھیجا ہے ۔”(احزاب 45) علامہ ابو السعود عمادی تفسیر ابو السعود میں فرماتے ہیں ۔ عَلٰی مَنْ بُعِثْتَ عَلَیْھِمْ تُرَاقِبُ اَحْوَالَھُمْ وَ تَشَاھِدُ اَعْمَالَھُمْ۔جن کیلئے آپ کی بعثت ہوئی ہے ،ان کے لئے شاہد بنا کر بھیجا ہے ،آپ انکے حالات سے با خبر ہیں اور انکے اعمال کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا”اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم پر گواہ ہوں گے ۔”اس کے تحت اہل سنت اور معترضین کی مسلمہ علمی شخصیت حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ تفسیر عزیز ی میں فرماتے ہیں :”یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے نور نبوت سے ہر دیندار کے دین کو جانتے ہیں کہ دین کے کس درجہ کو پہنچا ہے اور اسکے ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ اور کونسا حجاب اس کی ترقی میں مانع ہے ؟ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے گناہوں کو ،تمہارے درجات ایمان کو ،تمہارے نیک و بد اعمال کو تمہارے اخلاص و نفاق کو پہچانتے ہیں اور شارح بخاری اور امام قسطلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔لَا فَرْقَ بَیْنَ مَوْتِہ وَ حَیَاتِہ ، فِیْ مَشَاہَدَتِہ لِاُ مَّتِہ وَلِمَعْرِفَتِہ بِاَحْوَالِھِمْ،وَنِیَاتِھِمْ وَ عَزَائِمِھِمْ وَ خَوَاطِرِھِمْ وَ ذَالِکَ عِنْدَہ جَلِیّ لَّا خِفَائَ بِہ ۔یعنی اپنی امت کا مشاہدہ کرنے اور امت کے حالات ،نیتوں ، ارادوں اور دل میں کھٹکنے والے امور کو جانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ظاہرہ اور وفات میں کوئی فرق نہیں ،یہ تمام امور آپ پر روشن ہیں ،کوئی شے آپ سے مخفی نہیں

حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :لَیْسَ مِنْ عَبْدٍ یُّصَلِّیْ عَلَیَّ اِلَّا بَلَغَنِیْ صَوْتُہ حَیْثُ کَانَ ۔یعنی ”جو بندہ بھی مجھ پر درود شریف پڑھتا ہے تو اسکی آواز مجھے پہنچتی ہے ۔”(جلاء الافہام لا بن قیم 63)اس موقع پر صحابہ کرا م نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی وفات کے بعد بھی ؟ تو آپ نے فرمایا:اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاْکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَآئِ فَنَبِیُّ اللّٰہِ حَیّ یُرْزَقُ۔ یعنی بیشک اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کرام کے اجسام کو کھانا حرام فرما دیا ہے ،اللہ کا نبی زندہ ہوتا ہے ،اسے رزق عطا کیا جاتا ہے ۔ مختصر دلائل بالا سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات ظاہر میں اور وصال کے بعد میں بھی ساری کا ئنات کا مشاہدہ فرما رہے ہیں ۔ امت کے جسم و دل کے تمام اعمال سے مکمل واقف ہیں اور ہر جگہ سے اپنے امتیوں کا درود شریف سنتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ نماز میں پوری امت مسلمہ کو ۔اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ۔(اے نبی !(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)آپ پر سلام ہو )کے کلمات خطاب کے ساتھ سلام عرض کرنے کی تعلیم دی گئی ہے ۔ در مختار جلد اول میں ہے : وَیَقْصِدُ بِاَلْفَاظِ التَّشَھُّدِ الْاِنْشَائَ۔اور نماز میںان الفاظ سے انشاء یعنی دعا ء کا ارادہ کرے اور امام شامی فرماتے ہیں :اَیْ لاَیَقْصِدُ الْاَخْبَارَ وَالْحِکَایَةَ لِمَا وَقَعَ فِی الْمِعْرَاجِ مِنْہُ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَ مِنْ رَّبِّہ یعنی ان کلمات میں معراج کے اس قصے کی نیت نہ کرے ، جو نبی علیہ السلام اور آپ کے رب کے درمیان ہوا اور امام غزالی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : وَاَحْضِرْ فِی قَلْبِکَ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَشَخْصَہُ الْکَرِیْمَ وَقُلْ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَةُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہ۔یعنی اے نمازی ! تو اپنے دل میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاضر و ناظر جان اور پھر کہہ ۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ ۔اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر سلام ہو۔ تو نتیجہ واضح ہے کہ نماز کے اندر دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے صیغۂ خطاب سے سلام پیش کرنا جائز و سنت ہے ،لہٰذا نماز سے باہر بھی جائز ہے ،ناجائز شرک ہر گز نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے پیارے محبوب حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر درود شریف پڑھنا سعادت دارین ہے ۔اس پر اعتراض کرنے والے خود محروم ہیں ۔ خوش نصیب ہر صیغہ سے درود شریف کی کثرت کر کے دین و دنیا اور قبر و حشر کا نور حاصل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کثرت سے درود شریف پڑھنے کی توفیق دے ۔آمین!

تحریر : علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی
سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال پنجاب پاکستان
E.Mail…peerowaisi@yahoo.com
0300-6491308/0333-6491308