counter easy hit

خون، قلم اور زبان کے ذریعے زخموں سے چور تھکن سے نڈھال لیکن

نہ چاہتے ہوئے بھی اس زمین کو کئی امتحانات کے لیے تیار رہنے کی تیاری کے لیے اِذن جاری کیا جاچکا ہے۔ ایک بار پھر خون، قلم اور زبان کے ذریعے زخموں سے چور تھکن سے نڈھال لیکن پرعزم پاکستان پر حملے شروع ہوگئے ہیں۔ 25 جولائی مستقبل کے تعین کا دن ہے۔

اگر حقیقی طور پر ہم اس وطن کا رومانس دل میں معجزن رکھتے ہیں تو ہمیں انتخابی ماحول کو پرامن بنا کر مہذب ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔ کوشش تو ہماری قوم کر بھی رہی ہے لیکن افسوس پے در پے ایسے واقعات ہورہے ہیں جس سے کشیدگی کم نہیں بڑھتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔ سیاست، معیشت، کرپشن، تعلیم، صحت جیسے اندرونی تضادات کیا کم تھے کہ عین انتخابات کے وقت میں دہشت گردی بھی حملہ آور ہوگئی ہے۔ حقیقت ہے کہ سانحہ مستونگ نے ایک بار پھر ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ ڈالا ہے۔ ایک ہفتے میں 200 سے زائد جنازے اٹھوا کر دشمن ہمیں کیا پیغام دینا چاہ رہا ہے اس کے لیے بہت زیادہ عقلمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بلوچستان جہاں انتخابی سرگرمیاں جاری تھیں وہاں اب تعزیتی بیٹھکیں ہورہی ہیں۔ خیبرپختونخوا، یکہ توت اور بنوں دھماکوں کی وجہ سے افسردہ اور غمگین ہے۔ رئیسانی، بلور یا درانی یہ سب پاکستان کے روشن مستقبل کے خواب دیکھنے والے ہیں۔دوسری جانب، ہمارے سیاستدان جن کی ان دنوں سب سے بڑی ذمہ داری عوام کے ذہن کو مثبت رویوں کے ساتھ پرورش دینا ہے وہ بھی اپنی زمین کو زبان کے گھاو¿ دینے سے باز نہیں آرہے۔ مجھے یہ تو نہیں پتہ کے یہ فورتھ جنریشن وار ہے یا ففتھ جنریشن مگر اتنا پتہ ہے کہ حالیہ سالوں میں ایک بار پھر ہم حالت جنگ میں ہیں۔ ہمارے سیاستدان جتنے س±رعت اور تیزی سے پاک فوج اور قومی سلامتی کے اداروں کو بیانات کے ذریعے نشانہ بنا رہے ہیں اس سے لگ یہ رہا ہے کہ ہمارے سیاستدان اقتدار کے حصول کی جنگ میں اتنے مدہوش ہیں کہ انہیں ملک کی نازک صورتحال کا بھی اندازہ نہیں۔ حالیہ حالات میں ضرورت تو اس بات کی تھی کے دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملاتے ہوئے پاکستان کے اداروں کے شانہ بشانہ کھڑا ہوا جاتا مگر الٹا دھاندلی، پری پول رِگنگ اور دیگر گھٹیا الزامات لگا کر الیکشن کے عمل کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دشمن انتخابات ہونے نہیں دینا چاہتا۔ جبکہ سیاستدان شفافیت پر ابھی سے آوازیں کَس رہے ہیں۔ نقصان ہر صورت میں پاکستان کا ہورہا ہے۔ اپنے کارندوں کے ذریعے کام کرنے والا دشمن زیرِ لب مسکرا رہا ہوگا کہ خون تو ہم پاکستانیوں کا بہا ہی رہے تھے یہ زبان کے گھاو¿ بھی بہت ہی مزہ اور تاثیر دے رہے ہیں۔ملتان میں بغیر اجازت کے ریلی سے منع کرنے پر تھوڑی سی بعض پ±رس کیا ہوئی بلاول صاحب نے پورے ملک میں پاکستان پیپلز پارٹی کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا الزام لگا دیا

اور یہ کہ کر انتخابات کی شفافیت پر معصوم ذہنوں کے لیے سوالیہ نشان چھوڑ دیا حالانکہ ان کا الیکشن کاروان پورے سندھ کا دورہ کرتے ہوئے جنوبی پنجاب سے ہوتا ہوا سنٹرل پنجاب تک پہنچ چکا ہے۔ نہ جانے کونسا پلیئنگ فیلڈ پیپلز پارٹی کو درکار ہے۔ بلاول صاحب آپ چھوٹے تھےمگر اتنے بھی چھوٹے نہیں تھے جب 2013 کے انتخابات میں آپ کی انتخابی مہم بلٹ پروف شیشوں کے پییچھے سندھ تک محدود ہوگئی تھی کیونکہ تحریک طالبان نے آپ کو اوپن تھریٹ دیا ہوا تھا کہ پیپلز پارٹی ہو یا ایم کیو ایم کسی کو کسی بھی جگہ نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ کیا آپ اپنے الیکشن کاروان کا مقابلہ اس وقت سے کرسکتے ہیں؟۔ دعا دیں سیکورٹی اداروں کو کہ آج کا پاکستان 2013 کے پاکستان کی سیریل دہشت گردی سے مختلف ہے۔ جذبات ایک طرف رکھ کر اتنا سوچیں یہ جو تھوڑی بہت آپ کے جلسوں کے شیڈول کو لے کر بعض پرس ہورہی ہے یہ آپ کی سیکورٹی کے لیے ہی ہورہی ہے۔ ایک ہفتے میں 200 پاکستانی دہشت گردی کی نذر ہوچکا ہے اور آپ شہید کے بیٹے اور نواسے ہیں آپ کی سیکورٹی تو ویسے بھی حساسیت رکھتی ہے۔ میاں شہباز شریف صاحب جیسے نہایت ذمہ دار سیاستدان کی باتیں بھی موجودہ حالات میں سمجھ سے بالاتر نظر آرہی ہیں۔ جناب آپ کے بھائی اور بھتیجی کو پاکستان کی عدالتوں نے جیل کی راہ دکھائی ہے۔ آپ قانون کے ذریعے اپنا راستہ ڈھونڈیں۔ انتخابات کی شفافیت اور جیپ کے نشان کے پیچھے چھپنے کی کوشش نہ کریں۔ آپ کے سینے پر کئی تمغے ایسے ہیں جن کی بنا پر 2018 کے الیکشن میں آپ اپنی جیت کے لیے پرامید ہوسکتے ہیں مگر نگران حکومت نے آپ کے بھائی کے استقابالیے کو اپنی رٹ کے لیے چیلنج کیا سمجھا آپ نے اسے بھی پری پول رِگنگ کا نام دے دیا۔ شکر کریں سانحہ ماڈل ٹاو¿ن جیسی ٹریٹمنٹ آپ کے ورکرز کے ساتھ نہیں ہوئی۔ اگر آپ کی پارٹی کے لوگ ٹوٹ کر کسی اور جماعت میں چلے گئے یا آزاد حیثیت میں انتخاب لڑ رہے ہیں تو اس کا ماتم نہ کریں بلکہ نظر دوڑائیں کہ آپ کی جماعت میں اس ٹوٹ پھوٹ کا ذمہ دار کون ہے۔ یقیناً آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ وَن مین شو نے ہی اس اذیت سے آپ کو دوچار کیا ہے۔ عمران خان صاحب لاڈلے کا خطاب لے کر خوش ہیں حالانکہ یہ خطاب انہیں ریحام خان کی کتاب سے زیادہ انتخابی مہم میں نقصان پہنچا سکتا ہے۔ مانا کہ ہَوا ا±ن کے حق میں ہے مگر اس ہَوا کو موافق بنانے کے لیے اپنے الفاظ کے چناو¿ میں بہتری لائیں تو بہتر ہے ورنہ گدھے اور گھوڑے کا فرق انہیں معلوم پڑ جائے گا۔نگران حکومت اپنا کام کررہی ہے اور اس کی واحد ذمہ داری الیکشن کو فیئر اینڈ فری بروقت کروانا ہے۔ دہشت گردی سے سیکورٹی ادارے نمٹ رہے ہیں اور انشائ اللہ نمٹ بھی لیں گے۔ لیکن زبانی حملوں کا جواب عوام 25 جولائی کو دیں گے کیونکہ قوم 25 جولائی کو گیم چینجر ڈے کے طور پر منانے کا عزم کرچکی ہے۔