counter easy hit

میدان کرکٹ کے نامور تجزیہ کار کی خصوصی تحریر

Special writing of the famous cricket analyst

لاہور (ویب ڈیسک) ہفتے کی شام جب جنوبی افریقہ کے جے پی ڈومنی آسٹریلیا کے خلاف آوٹ ہو کر ’ڈگ آؤٹ‘ کی جانب بڑھ رہے تھے تو کمنٹری باکس سے آواز آئی،’جے پی ڈومنی اپنے ون ڈے کرئیر میں آخری بار گراونڈ سے رخصت ہو رہے ہیں۔ انھوں نے 13 گیندوں پر 14 رنز کیے ہیں نامور کرکٹ تجزیہ کار سمیع چوہدری اپنی ایک خصوصی تحریر میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ مگر بحیثیتِ مجموعی ان کا کرئیر شاندار رہا۔‘ ان جملوں کی حساسیت ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ ایک لمحے کو بد ترین ناقد کا بھی دل پسیج جاتا ہے اور یوں ایک میگا ایونٹ میں پوری دنیا کے سامنے ایک قابلِ ذکر کرئیر اپنے منطقی انجام کو پہنچتا ہے۔لیکن کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کو اعداد و شمار اور توجیہات سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ انھیں ہم قسمت کہتے ہیں۔سو اگر قسمت کے پیمانے سے جانچا جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ شعیب ملک کا کرئیر خاطر خواہ طور سے انجام پذیر نہ ہو سکا۔سری لنکا کے سب سے کامیاب بلے باز کمار سنگاکارا جب ریٹائر ہوئے تو ان کے والد نے کہا تھا کہ میرے بیٹے نے اپنی صلاحیت کی نسبت بہت کم کامیابی حاصل کی۔ سنگاکارا کے والد نے تو نجانے کس بنا پر یہ کہا تھا۔مگر یہی بات شعیب ملک کے بارے ہم نہایت وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اپنے کچھ ذاتی مسائل اور بعض آف فیلڈ وجوہات کے سبب انھوں نے اپنے ٹیلنٹ کی نسبت کم کامیابی حاصل کی۔شعیب ملک کے کرئیر کو دو ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ایک وہ وقت کہ جب وہ پی سی بی کی آنکھ کا تارا تھے، یہاں تک کہ جاوید میانداد نے چِڑ کر کہہ ڈالا کہ ٹیم کی کپتانی بچے کے ہاتھ میں دے دی گئی۔جاوید میانداد نے یہ بات کیوں کہی تھی، یہ تو وہی جانیں مگر اعداد و شمار ہی یہ ثابت کرنے کو کافی ہیں کہ کرکٹنگ پیرائے میں شعیب ملک ایک بہترین کپتان تھے۔ انھیں ٹیم بنانے کا بھی سلیقہ تھا اور اسے چلانے کا بھی۔لیکن المیہ یہ ہوا کہ دیگر کئی کپتانوں کی طرح وہ بھی کرکٹ کی ’اسٹیبلشمنٹ` سے ہار گئے۔ وگرنہ پہلا ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ آج بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ شعیب ملک ایک گھاگ کپتان تھے۔جس مصباح الحق نے پاکستان کرکٹ کا نام دنیا میں روشن کیا، اس مصباح کو ٹیم میں واپس لانے والے بھی شعیب ملک ہی تھے۔اور آج بھی ون ڈے میں پاکستانی کپتانوں کی جیت کی شرح کا تقابل کیا جائے تو شعیب ملک ہی اوپر نظر آتے ہیں۔ ناقدین کا اصرار ہے کہ اس میں دو سیریز زمبابوے اور بنگلہ دیش کے خلاف تھیں مگر ریکارڈ بہرحال ریکارڈ ہے۔ڈومیسٹک کرکٹ کے ایک میچ میں کہیں وسیم اکرم کی نظر ان پر پڑی اور قومی ٹیم میں شامل کروایا کہ بہترین پلئیر ہے، اچھی آف سپن کرتا ہے اور مڈل آرڈر کا بلے باز بھی تگڑا ہے۔مگر یہی شعیب ملک جب کپتان بنے تو ناقدین کی صف میں بھی وہی وسیم اکرم آگے کھڑے تھے جنھیں کبھی اس لڑکے میں بہترین آف سپنر اور تگڑا مڈل آرڈر بیٹسمین نظر آیا تھا۔گو اس بات کو بھی وسیم اکرم یوں توجیہات میں گھما لیتے تھے کہ ہاں میں نے ہی کہا تھا مگر اب وہ بدل گیا ہے۔پاکستانی کپتانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ٹیم مینیجمنٹ یا جیت کی فکر نہیں ہوتی، انھیں اپنی ’اسٹیبلشمنٹ‘ سے بھی بنا کر رکھنا ہوتی ہے۔کیونکہ بفضلِ خدا اب پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح صرف سیاست تک محدود نہیں رہی، کرکٹ سے کوک سٹوڈیو تک ہر جگہ یہ وبا پھیل چکی ہے۔ یہ پاکستان کرکٹ کی اسٹیبلشمنٹ ہی ہے جو ٹی وی پر کرکٹ کے جنازے نکلوانے کا کام تسلی بخش کرتی ہے۔ اس کے ’بندے‘ ہر ٹیم میں ہوتے ہیں اور ہر چینل کے ’پینل‘ کا بھی حصہ ہوتے ہیں۔یہ اپنی مرضی سے کپتان بنواتے ہیں، پھر انھیں کچھ عرصہ چلاتے ہیں اور بھاؤ تاؤ دیکھ کر خود ہی اس کی کپتانی کا جنازہ بھی نکلوا دیتے ہیں۔اپنے کرئیر کے پہلے دور میں شعیب ملک کے ’اسٹیبلشمنٹ‘ سے تعلقات خوب رہے۔ ان کی کپتانی بھی چلی۔ بورڈ نے بھی سپورٹ کیا۔ پہلے ورلڈ ٹی ٹونٹی کے رنر اپ کپتان بنے۔مگر پھر اچانک کرئیر کا وہ دوسرا دور آیا کہ جس کی بِنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے ٹیلنٹ سے انصاف نہیں کر پائے۔جب اسٹیبلشمنٹ سے ان کے تعلقات میں دراڑیں آنے لگیں تو اچانک ان کی کپتانی میں بھی نقائص دکھنے لگے، ان کی ٹیم بالکل قریب آ کر ہارنے لگی اور گروپنگ کی خبریں گردش کرنے لگیں۔کپتانی بھی چلی گئی اور شعیب ملک بھی ٹیم سے باہر ہو گئے۔ ایک بار پھر ایک پاکستانی کپتان اپنی کرکٹ اسٹیبلشمنٹ سے ہار گیا۔ اور اس کے بعد کرئیر کا جو دوسرا دور شروع ہوا، اس میں شعیب ملک ٹکڑوں میں کہیں کہیں نظر آتے ہیں۔مگر ورلڈ کپ 2015 کے بعد شعیب ملک نے بہترین ’کم بیک‘ کیا۔ ان کی بیٹنگ اوسط شاندار ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ پاکستان کی تاریخ کے پانچویں کامیاب ترین ون ڈے بیٹسمین بن گئے۔ملک بہت پہلے کہہ چکے تھے کہ یہ ان کا آخری ورلڈ کپ ہو گا۔ پلئیرز اسی لیے ریٹائرمنٹ کو یہ ورلڈ سٹیج چنتے ہیں کہ کرئیر کے آخری لمحات پوری دنیا کے سامنے گزریں۔مگر یہاں وہ بات ہے جسے قسمت کہتے ہیں۔شعیب ملک نے جس تکریم کے لیے ورلڈ کپ کو اپنے کرئیر کا اختتامی نوٹ چنا تھا، وہ توقیر ان کے حصے نہ آ سکی اور اپنے کرئیر کے آخری چار میچ وہ پلئینگ الیون کا حصہ بھی نہ بن سکے۔ہاں پاکستان کے آخری میچ میں انھیں باقاعدہ گراونڈ میں بلا کر ’گارڈ آف آنر‘ ضرور دیا گیا لیکن اپنے ہم نام شعیب اختر کی طرح وہ بھی الوداعی میچ نہ کھیل سکے اور یوں 2019 کا وہ انٹرنیشنل کرکٹر جو پچھلی صدی سے اب تک انٹرنیشنل کرکٹ کھیلتا آ رہا تھا، ایک پریس کانفرنس میں بیٹھ کر چند صحافیوں کے سامنے ریٹائر ہو گیا۔اگر وہ اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر رکھ پاتے اور اپنی ذاتی الجھنوں کو کھیل سے الگ رکھ پاتے تو شاید شاہد آفریدی سے بھی بڑے سٹار بن جاتے، پاکستان بھر کے پوسٹر بوائے ٹھہرتے۔ مگر ایسا ہو نہ سکا۔شومئی قسمت کہ ایک اور بہترین پاکستانی کرکٹر خاطر خواہ الوداع کے بغیر ہی ریٹائر ہو گیا

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website