counter easy hit

ایٹمی پروگرام پر ہمارا قومی بیانیہ

دشمنوں اور بدخواہوں کو مختلف حیلوں سے ’’آبیل مجھے مار‘‘ کی ترغیب دینا کوئی ہم سے سیکھے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام تو ویسے ہی ہمارے کئی دوست ہونے کے دعوے دار ملکوں کے دل میں بھی کھٹکتا ہے۔ اس کے بارے میں بڑھک بازی دیوانگی ہے۔
ہمارے وزیر دفاع۔ جناب خواجہ آصف کو مگر کون سمجھائے۔ طبیعت موصوف نے بہت جلالی پائی ہے۔ بولنے کے بعد بھی تولنے کا تردد نہیں کرتے۔ اگرچہ چند ہی روز پہلے قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر موصوف نے ایک عالم ِ کامل کی رعونت کے ساتھ سپیکر کو یہ بتایا تھا کہ پاکستانی میڈیا میں جو بھی لکھا اور بولا جائے اسے یاوہ گوئی سمجھ کر نظرانداز کردینا چاہیے۔ اس میڈیا کو خبر ہی نہیں کہ بجلی،گیس اور تیل کے نرخ طے کرنے والے ریگولیٹری اداروں کا محض انتظامی کنٹرول ،ان امور سے متعلق وزارتوں کے سپرد کیا گیا ہے۔ حکومتی روزمرہّ کے ایک فیصلے کی بابت مگر دہائی مچادی گئی۔
اپنے ملک کے میڈیا کو حقارت کے ساتھ یاوہ گوئی کا مرتکب ٹھہرانے والے یہ وزیر البتہ خود یہ چیسک کرنے کا تردد نہ کر پائے کہ اسرائیل نے پاکستان کو شام کے حوالے سے ’’سبق‘‘ وغیرہ سکھانے کی دھمکی واقعتا دی بھی ہے یا نہیں۔ فیس بک کے ذریعے پھیلائی ایک جھوٹی خبر پر فوری اشتعال میں آگئے اور ا سرائیل کو پاکستان کی ایٹمی قوت یاد دلادی۔ اسرائیلی حکومت نے ایک نپے تلے بیان کے ساتھ فیس بک کے ذریعے پھیلائی جھوٹی خبر کا حوالہ دے کر خو دکو اس معاملے سے غیر متعلق کردیا۔پاکستان کے بدخواہوں کو مگر ہمارا مذاق اُڑانے کا ایک اور بہانہ مل گیا۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں ہمارا ایک سوچا سمجھا اور طے شدہ قومی بیانیہ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس بیانیے کی بہت مؤثر انداز میں اختراع کی تھی۔ قیامِ پاکستان کی حقیقت کو روزِ اوّل سے بھارت نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ دسمبر 1971ء میں پاکستان کے مشرقی حصے کو فوجی قوت کے بل بوتے پر ہم سے جدا کرنے کے بعد اس نے اپنے تئیں دوقومی نظریے کی بنیاد پر بنے ملک کے حصے بخرے کرنے کے عمل کی بنیاد ڈال دی تھی۔خود کو جنوبی ایشیاء کا یک ونتہا پردھان ثابت کرنے کے لئے پھر اس نے ایٹمی تجربہ بھی کرڈالا۔ پاکستان اس کے بعد خود کو ایٹمی قوت بنائے بغیر نفسیاتی طورپر محفوظ محسوس کرہی نہیں سکتا تھا۔ اسی باعث ’’گھاس کھاکر بھی‘‘ ایٹمی طاقت بننے کا عہد کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اس عہد کی بنا پر عبرت ناک انجام سے دو چار کیا گیا۔اسے پھانسی پر لٹکانے والے جنرل ضیاء بھی لیکن ایٹمی پرگروام کو جاری رکھنے پر مجبور ہوئے۔ فوجی حکومت کے بعد آنے والی جمہوری حکومتوں نے بھی اسے جاری رکھا۔ مئی1998ء میں بالآخر بھارت نے ایک ایٹمی دھماکے کے بعد پاکستان کو اس ضمن میں اپنے کارڈز شو کرنے پر مجبور کردیا۔
پاکستان جوابی ایٹمی دھماکے نہ کرتا تو بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کبھی بس میں بیٹھ کر لاہور نہ آتے۔ اپنے قیام کے دوران اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھنے والی ہندو انتہا پسند جماعت بی جے پی کے یہ قائد مینارِ پاکستان بھی گئے تھے۔اس میدان میں مارچ 1940ء میں برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن حاصل کرنے کا عہد لیا گیا تھا۔واجپائی نے اسی میدان میں کھڑے ہوکر پاکستان کی حقیقت کو بالآخر تسلیم کر ہی لیا۔ہمارے ایٹمی پروگرام کے بارے میں تشکیل دئیے قومی بیانیے کی تصدیق ہوگئی۔
اس بیانیے سے دائیں بائیں ہونا ہماری سبکی کا باعث ہی نہیں سنگین مشکلات کا طوفان بھی کھڑا کردیتا ہے۔کاش خورشید قصوری کبھی ایک کتاب یہ سمجھانے کے لئے بھی لکھ ڈالیں کہ ایران اور لیبیاکو ایٹمی قوت فراہم کرنے کی کوششیں کتنی بچگانہ مگر خوفناک تھیں اور پاکستان کو یہ کوششیں واشگاف ہونے کے بعد کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ کتاب لکھتے ہوئے یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ امریکہ اور اس کے حواریوں نے ازخود ساری حقیقت دریافت نہیں کی تھی۔ ایران اور لیبیا کی ان دنوں کی قیادت نے ازخود اچھے لڑکے نظرآنے کے لئے اقبالی بیانات دئیے تھے۔ ہمارے بدخواہوں کو ’’ٹھوس ثبوت‘‘فراہم کئے۔
اسرائیل بذاتِ خود ایک ایٹمی قوت ہے۔ اپنے ’’ایٹمی‘‘ ہونے کی مگر وہ کبھی بڑھک نہیں لگاتا۔ اس نے خود کو کہیں سے بھی چلائے میزائلوں سے بچانے کا مؤثرنظام بھی بنارکھا ہے۔اس نظام میں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس میزائلوں کو فضا میں روک کرناکارہ بنانے کا بندوبست بھی شامل ہے۔انٹرنیٹ پر چند گھنٹے گزار کر خواجہ آصف اس نظام کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
پاکستانی میڈیا کی ’’یاوہ گوئی‘‘پر ناراض ہوئے خواجہ آصف ویسے بھی وزیر دفاع ہوتے ہوئے ہمارے ایٹمی ماہرین سے تفصیلی بریفنگ لینے کے حق دار ہیں۔اسرائیل کو ایک جھوٹی خبر کی بنیاد پر للکارنے سے پہلے کاش وہ ان ماہرین ہی سے رجوع کرلیتے تو ہماری اجتماعی سبکی نہ ہوتی۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں ہمارا قومی بیانیہ بہت سادہ اور واضح ہے۔یہ پروگرام قطعاََ بھارت کا مخصوص ہے۔ اس کا کسی دوسرے ملک سے قطعاََ کوئی لینا دینا نہیں۔ہم اس بیانیے کی بنیاد سے دائیں بائیں نہ ہوں تو ہمارے بدترین بدخواہ بھی اپنے تعصبات پر چاہے دل ہی میں سہی شرمند ہوجانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔اسرائیل کو اس پروگرام کا ممکنہ نشانہ شمار کرنا ہرگز ہمارے قومی مفادات میں نہیں’’آبیل مجھے مار‘‘ کی مگر ہمیںلت لگ چکی ہے۔اس کا کوئی علاج نہیں۔
اس کالم کی ابتداء میں عرض کرچکا ہوں کہ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ہوئے بھارتی ایٹمی دھماکے کے بعد پاکستان کو اپنی بقاء کو یقینی بنانے کے لئے جوابی ایٹمی پروگرام کی اشد ضرورت تھی۔ مئی 1998ء میں بھارت نے اس ضمن میں مزید پیش قدمی کی تو ہمارے پاس جوابی دھماکوں کے علاوہ اور کوئی آپشن ہی نہیں تھا۔نواز شریف کے ساتھ مسلسل ٹیلی فون رابطوں کے ذریعے امریکی صدر کلنٹن پاکستان کو مگر جوابی دھماکوں سے روکتا رہا۔ پاکستان نے جان بوجھ کر وقت لیا۔جوابی دھماکوں کے لئے ہماری سوچی سمجھی تاخیر نے ایل کے ایڈوانی جیسے انتہا پسندوں کو پریشان کردیا۔ موصوف ان دنوں بھارت کے وزیر داخلہ تھے اور ڈپٹی پرائم منسٹر کے اختیارات کے حامل بھی۔ اسے ہندوانتہا پسندی کا ’’نظریہ ساز‘‘ بھی سمجھا جاتا تھا۔ مئی 1998کے ایٹمی دھماکے کے بعد وہ ہمارے کشمیر کو ’’آزاد‘‘ کروانے کی بڑھکیں لگانے لگے۔جوابی دھماکوں کے لئے ہمارا کیس ان بیانات کی وجہ سے مضبوط تر ہوگیا۔
ہمارے ایٹمی کیس کی بھارتی عزائم کے حوالے سے ٹھوس وجوہات ہوتے ہوئے بھی ان دنوں یہ افواہ پھیلادی گئی تھی کہ اسرائیلی طیارے بھارت کے کسی فضائی مستقر سے پروان لے کر ہمارے ایٹمی پروگرام کو نشانہ بنانے والے ہیں۔اس نوعیت کا ایک وار جو اسرائیل نے عراق کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کے لئے کیا تھا۔
ہمیں تو کسی نے کبھی بتایا نہیں۔وزیر دفاع ہوتے ہوئے خواجہ آصف کو لیکن سرکاری ریکارڈتک رسائی حاصل ہونی چاہیے۔ وہ تھوڑا ہوم ورک کرنا چاہیں تو معلوم کرسکتے ہیں کہ بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو اسرائیلی طیاروں کی مدد سے تباہ کرنے کی افواہیں پھیلی تواسرائیلی حکومت نے باقاعدہ ا مریکہ میں ان دنوں موجود پاکستانی سفارت کاروں سے رابطے کئے تھے۔ہمارے سفارت کاروں سے احتجاج کیا گیا کہ اسرائیل کو خواہ مخواہ اس معاملے میں گھسیٹا جارہا ہے۔
خواجہ آصف کو شاید اس بات کا علم بھی نہیں کہ امریکہ اور برطانیہ متعدد کوششوں کے باوجود بھارت کو اس بات پر آمادہ نہیں کر پائے تھے کہ وہ لوک سبھا پر ہوئے حملے کے بعد پاکستانی سرحدوں پرآئی بال ٹو آئی بال لگائی فوج کو دستبردار کرلے۔ 2002ء سے 2003ء تک پورے دس مہینے پاکستانی اور بھارتی افواج سرحدوں پر حالتِ جنگ کی صورت تعینات رہی تھیں۔ بھارتی وزیر اعظم فیصلہ کن جنگ کا خوف اجاگر کرنے والی اس صورت کو بدلنے کے لئے ہرگز تیار نہیں تھے۔
نئی دہلی کوحالات معمول پر لا نے پر آمادہ کرنے کے لئے تمام تر بین الاقوامی کوششیں ناکام ہوگئیں تو اسرائیل نے اچانک اپنے کئی ہوائی جہاز بھارت بھیج دئیے۔اس ملک میں موجود اسرائیلی سیاحوں کو اطلاع دی گی کہ وہ فوراََ ان جہازوں میں بیٹھ کر وطن لوٹ آئیں کیونکہ ’’بھارت اور پاکستان ایٹمی جنگ کے دہانے تک پہنچ چکے ہیں۔‘‘اسرائیل کے اس سفارتی طورپر جارحانہ مگر مؤثرفیصلے کی وجہ سے واجپائی پاکستان کی سرحدوں سے اپنی فوجیں حالتِ امن کی صورت میں لوٹانے پر مجبور ہوا۔
اسرائیل اجتماعی حوالوں سے مسلمانوں کا ہرگز خیرخواہ نہیں۔ اس نے فلسطینیوں کا جینا بھی حرام کررکھا ہے۔پاکستان کے ساتھ کوئی پنگا لینے کو لیکن وہ ہرگز تیار نہیں۔ہمیں اس کو اپنی ایٹمی قوت یاد دلانے کی قطعاََ کوئی ضرورت نہیں۔ خاص طورپر فیس بک کے ذریعے پھیلائی ایک جھوٹی اور بے بنیاد خبر کی بنیاد پر۔خواجہ آصف کو مگر یہ بات کون سمجھاسکتاہے۔ وہ تو بذاتِ خود مجسم عقل ہوا کرتے ہیں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website