لاہور: پنجاب حکومت نے نیب کو اورنج لائن ٹرین منصوبے کا مکمل ریکارڈ فراہم کرنے سے انکار کر دیا، پاکستان چین کے درمیان ہونیوالا معاہدہ نیب کو دینے سے انکار کر کے انہیں صرف بریفنگ دینے سے متعلق جواب دیا ہے جبکہ دوسری جانب پنجاب کمپنی سکینڈل میں نیب نے قائداعظم سولر پاور کمپنی میں مبینہ طور پر 2 ارب 30 کروڑ کی بے ضابطگیوں کی بھی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ محکمہ خزانہ پنجاب کے بعض افسران یہ واضح کر چکے ہیں کہ قائداعظم سولر پاور کمپنی سے متعلق جو آڈٹ رپورٹ سامنے آئی ہے اس میں واضح طور پر کئی اہم معاملات کی نشاندہی کی گئی ہے ، سابق سی ای او نجم شاہ جو کہ اس وقت تعینات تھے ان سے جواب طلب کیا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ آڈٹ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ایک کمپنی چینٹ سٹوڈ جو کی بڈ کم سے کم تھی جو 20 کروڑ 62 لاکھ 81 ہزار ڈالر تھی، اس کو بغیر کوئی وجہ بتائے ختم کر دیا گیا اور دوسری کمپنی ٹبیہ ٹی بی وی اے کی 22 کروڑ 57 لاکھ 68 ہزارڈالرکی بڈ منظور کر لی گئی۔ کمپنیوں کی جانچ پڑتال پہلے کرنے کے بجائے ایک کمپنی کو مسترد کرنے کے بعد جانچ پڑتال کا عمل شروع کیا گیا تھا۔ جس میں پیپرا رولز کی سخت خلاف ورزی کی گئی، سب سے کم بڈ دینے والی کمپنی کو ٹھیکہ نہ دینے سے ایک کروڑ 93 لاکھ 45 ہزار ڈالر کا سرکاری خزانے کو نقصان ہوا ہے۔ جو کہ تقریباً دو ارب روپے سے زائد رقم بنتی ہے، اسی طرح راشد مجید نامی شخص کو بغیر سوچے سمجھے کنسلٹنٹ بھرتی کر لیا گیا کیونکہ راشد مجید قائداعظم سولر پاور کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کا ممبر بھی تھا، ایک بینک کا ایڈوائزر بھی تھا اور پھر راشد مجید پرکیورمنٹ سمیت متعدد کمپنیوں کا بھی ممبر رہا ہے۔
اسی طرح متعلقہ کمپنی میں 8 کروڑ 27 لاکھ کی بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔ جس میں واضح طور پر لکھا گیا کہ راشد مجید کو کن شرائط پر کنسلٹنٹ بھرتی کیا گیا اور انہوں نے پھر من پسند کمپنی اور دیگر کمپنیوں کو خفیہ معلومات دیں آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غیر ملکی انجینئر کو بھاری تنخواہ و دیگر مراعات پر رکھا گیا اور خلاف قانون گھر، گاڑی اور دفتر کا فرنیچر خریدنے تک کی اجازت بھی دی گئی۔ اس حوالے سے محکمہ خزانہ پنجاب حکام کا کہنا ہے کہ آڈٹ پیرے سامنے آئے ہیں جس کو دیکھ رہے ہیں اور اس پر کئی اجلاس بھی ہو چکے ہیں، مزید بھی اجلاس ہو رہے ہیں اور اس کو سیٹل کرنے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔








