counter easy hit

کلید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہارون الرشید

لاہور (ویب ڈیسک) قیمت جب بڑھ جاتی ہے تو خریدار کو ہاتھ اٹھانا ہوتا ہے۔ طالبان کی کامیابیاں ان کا اعتماد برقرار رکھیں گی۔ محدود وسائل بھی گوریلا جنگ لڑنے والوں کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ اپنے زیر اثر علاقوں میں تاجروں سے وہ ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ منشیات کی آمدن
نامور کالم نگار ہارون الرشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس کے سوا ہے۔ افغانستان میں امریکیوں کا کوئی مستقبل ہے اور نہ بھارتیوں کا۔ جس طرح دوسرے فریق راہ پہ آتے دکھائی دیتے ہیں‘ افغانستان کے باب میں رفتہ رفتہ پاکستان بھی حقیقت پسندی کی طرف بڑھا ہے۔ افسوس کہ داخلی کشمکش میں نہیں۔ یہ انتخابات نہیں ہیں‘‘ الیکشن سے قبل ایک ممتاز غیر سیاسی شخصیت سے اس ناچیز نے کہا تھا ‘ جن کی معلومات ہم اخبار نویسوں سے زیادہ ہوتی ہیں۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی سے اکتائے ہوئے عوام اور اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی کو قبول کر لیا۔ اب بھی اس کے لیے بڑی مہلت موجود ہے۔ ان کی واپسی کا آرزو مند کوئی نہیں‘ دونوں ہاتھوں سے سرکاری خزانہ جو لوٹتے رہے۔ قومی دفاع کے باب میں‘ جن پہ انحصار نہ کیا جا سکتا تھا۔ پیپلز پارٹی ایک صوبے تک سمٹ گئی‘ جہاں اب بھی ظلم اور لوٹ مار کا دور دورہ ہے۔ اس کی مہلت چنانچہ تمام ہو گئی۔ شہباز شریف کے سوا پورا خاندان یہ سمجھنے میں ناکام رہا کہ خوفناک دہشت گردی اور سرحدوں پہ یلغار کے ہنگام‘ قوم اپنی محافظ فوج کو رسوا کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ با ایں ہمہ کارِ حکمرانی میں پی ٹی آئی بالکل بانجھ ثابت ہوئی۔ آٓدمی ششدر رہ جاتا ہے‘ جب شہریار آفریدی ایسے وزراء کو ایسی احمقانہ بات کرتے ہوئے سنتا ہے کہ اسلام آباد کی 75 فیصد بچیاں ہیروئن کی عادی ہیں۔ اساتذہ‘ والدین‘ میڈیا‘ پولیس‘ ایف آئی اے‘ ساری دنیا کیا اندھی ہے ‘ اللہ نے آنکھیں صرف شہریار آفریدی کو عطا کی ہیں؟ کیا یہ وہی صاحب نہیں جو راولپنڈی کے ایک تھانے میں گھس کر حوالاتیوں کو آزاد کرنے پہ مصر تھے؟ نئے پاکستان میں معاشی پالیسیوں پہ اتنی بار بات کی ہے کہ تکرار سے کوفت ہونے لگی ہے۔ یوں بھی کل حبیب اکرم نے اس موضوع پہ قلم توڑ دیا ہے۔ شاید ہی اس میں کچھ اضافہ کیا جا سکے۔ خاکسار کا اندازہ بھی یہی ہے کہ عمران خان کے لیے سال‘ ڈیڑھ سال کی مہلت ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری سے اکتائے لوگ پھر شاید برہم ہو کر اٹھ کھڑے ہوں۔ کامیابی کی کلید اس کے سوا کچھ نہیں کہ حقائق کو تسلیم کیا جائے۔ ان پر غور کیا جائے اور ان سے مطابقت پیدا کی جائے اور ان کی روشنی میں فیصلے صادر کیے جائیں۔ چابی کے بغیر قُفل نہیں کھلا کرتے۔ حضورِ والا‘ حضورِوالا۔