counter easy hit

‘بزم غزل’ کی جانب سے دوسرے بین الاقوامی آن لائن مشاعرہ کا اہتمام

Bazme Ghazal

Bazme Ghazal

پٹنہ (کامران غنی) واٹس ایپ گروپ ”بزم غزل” کی جانب سے دوسرے بین الاقوامی مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا۔ اس مشاعرہ میں ہندوستان کے علاوہ بیرون ملک کے شعرائے کرام اور کثیر تعداد میں سامعین کرام نے بھی شرکت کی۔ اس تاریخی مشاعرہ کا اہتمام بہار گیت(میری رفتار پہ سورج کی کرن ناز کرے) کے خالق ایم آر چشتی نے کیا۔

مشاعرہ کی صدارت دوحہ، قطر میں مقیم معروف شاعر احمد اشفاق نے کی جبکہ نظامت کے فرائض نوجوان شاعر کامران غنی صبا نے انجام دئیے۔ افتتاحی کلمات ادا کرتے ہوئے بزم غزل کے سرپرست ایم آر چشتی نے کہا کہ ”بزم غزل” کا مقصد دنیا کے مختلف ملکوں میں مقیم شعرائے اردو کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہے۔انھوں نے کہا کہ آج کی تیز رفتار زندگی میں کسی کے پاس اتنی فرصت نہیں ہے کہ وہ ادب کے لیے الگ سے وقت نکال سکے۔

ایسے میں واٹس ایپ اور سوشل میڈیا ‘ادبی رابطہ’ کا ایک بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔مشاعرہ میں جن شعرائے کرام نے شرکت کی ان میں اسامہ عقیل، مصباح منور، انعام عازمی، مصداق اعظمی، ایم عالم صدیقی، محمد رضوان احمد،نصر بلخی، نیر اعظم، سنجیدہ عنبریں، سمیر پریمل، آرتی، ڈاکٹر بھوانا، جمیل اختر شفیق، ایم آر چشتی، کامران غنی صبا، ڈاکٹر منصور خوشتر، منصور قاسمی، ڈاکٹر واحد نظیر، پروفیسر عبد المنان طرزی اور احمد اشفاق کے نام قابل ذکر ہیں۔ احمد اشفاق نے صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے منتظمین مشاعرہ کو اس شاندار اور کامیاب مشاعرہ کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی۔

انھوں نے کہا ایم آر چشتی ، ڈاکٹر منصور خوشتر اور کامران غنی صبا جیسے فعال نوجوانوں نے اتنے شاندار اور معیاری آن لائن مشاعرہ کا اہتمام کر کے تاریخ رقم کی ہے۔مشاعرہ میں شعراء و شاعرات کے علاوہ کثیر تعداد میں باذوق سامعین و ناظرین نے بھی شرکت کی۔ ان میں پروفیسر اسرائیل رضا، شاہنواز بدر قاسمی، محمد رضا فراز، احمد عثمانی، حبیب مرشد خان، سفیان غنی، محمد عثمانی اور صبیحہ بانو وغیرہ کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
شعرا و شاعرات کے منتخب اشعار قارئین کی نذر ہیں:

رضوان احمد
اجاڑنے میں گلستاں کو ہاتھ ہے کس کا
یہ مجھ سے پوچھ کے اپنے کو شرمسار نہ کر

سنجیدہ عنبریں
جس کو آباد کرنے میں صدیاں لگیں
دم کے دم میں وہ بستی جلا دی گئی

اسامہ عقیل
تری دھڑکنیں ہیں عزیز تر، مرے دل کی دھڑکن ہے خاک تر
چلو تم رہو یہاں معتبر، یہاں تار تار کوئی تو ہو

نصر بلخی
ہر ایک قافلہ لٹتا ہے صبح و شام یہاں
بہت ہی خوب جو کہتے ہو رہزنی کم ہے

نیر اعظم
نظر سے یوں نظر مل جائے تو کچھ بات بن جائے
نہ راتوں کو ہی نیند آئے، نہ دن کا کچھ ٹھکانا ہے

سمیر پریمل
در و دیوار سے آنسو ٹپکتے ہیں لہو بن کر
اسی کمرے میں ارمانوںکا اک بستر رہا ہوگا

ایم عالم صدیقی
اپنے ہمسائے کو بھی ملے روشنی
ایسا اک دیپ گھر میں جلاتے چلیں

عمران راقم
کس طرح بانٹتا وہ اندھیرا حیات کا
جو شخص مصلحت کے اجالوں میں گم ہوا

منصور قاسمی
نہ ملا نور، نہ خوشبو، نہ ہوا ہی آئی
ایک مدت سے مرا در تھا کھلا کچھ نہ ملا

ڈاکٹر بھوانا
خزاں کے سائے سے ڈر گئے ہیں
تبھی یہ پتّے بکھر گئے ہیں
آرتی
ہے محبت سے ہی روشن یہ جہاں کی محفل
کیوں محبت کے ہیں دشمن یہ زمانے والے

مصداق اعظمی
میرے مالک نواز دے مجھ کو
یا مری خواہشوں کو کم کر دے

انعام عازمی
روح زخمی ہے مری، جسم ہے ریزہ ریزہ
میرے ہمدرد تو کیا ڈھونڈ رہا ہے مجھ میں

ڈاکٹر واحد نظیر
جو تھا پتھر وہ شیشہ ہو گیا ہے
مرا قاتل مسیحا ہو گیا ہے

ڈاکٹر منصور خوشتر
قدرت کے ہر عمل میں ہے پوشیدہ مصلحت
ہے گل کی پاسبانی کو خاروں کا قافلہ

ایم آر چشتی
میں تجھے بھول بھی جائوں تو مجھے کیا حاصل
تو نہ ہوگا تو کوئی اور رلائے گا مجھے

کامران غنی صبا
ہجر معراج عاشقی ہے صبا
شبِ فرقت میں بندگی ہوگی
پروفیسر عبد المنان طرزی
شعورِ فن کا جوہر جب دکھاتے ہیں غزل والے
زمیں کو آسماں گویا بناتے ہیں غزل والے

احمد اشفاق
یہ کس کا ذکر تم کو ہر گھڑی بے چین رکھتا ہے
یہ کس کی یاد ہر لمحہ پشیمانی میں رکھتی ہے