counter easy hit

چترال سوگوار ہے

جان سے عزیز اپنے اکتیس سالہ بھانجے اُسامہ کی جدائی کا صدمہ اسقدر شدید ہے کہ بحالی میں وقت لگے گا، خدائے ذوالجلال کے کرم سے درد کا طوفان ضرور تھمے گا۔ گھاؤ اگرچہ انتہائی گہرا ہے مگر قادرِ مطلق سے پوری امید ہے وہ اپنے بندوں کی دعائیں اور التجائیں ضرور قبول فرمائیں گے اور اپنی رحمتوں کے مرہم سے زخم بھر دیں گے۔ اُسامہ کی شہادت پر اضطراب کی کیفیت میں تحریر کیے گئے جذبات “ایکسپریس” کے علاوہ” نوائے وقت” “نئی بات” اور دیگر اخبارات میں چھپے تو بے شمار فون خطوط ، میسج اور ای میلز آئیں۔ لکھنے والے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو زندگی میں کبھی نہیں ملے۔ چترال کے بہت سے باسیوں نے اُسامہ کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے، ان میںچند ایک کی کچھ لائنیں شیئر کر رہا ہوں۔

چترال سے ممتاز علی صاحب لکھتے ہیں۔’’ چترال کی تاریخ میںڈپٹی کمشنر پہلے بھی آتے رہے اور آیندہ بھی آتے رہیں گے لیکن اُسامہ احمد وڑائچ شہید جیسا اب شاید ہی کوئی آئے۔کتنے دنوں سے سوچ رہا تھا کہ جاکر اُسامہ کے ماں باپ کے قدموں کو بوسہ دوں جنہوں نے ایسے ہیرے تراش کر سول سروس میں بھیج دیے تھے۔ آج آپکا کالم پڑھا تو اس جملے سے آگے نہیں جاسکا کہ ’ چترال کے لوگ آکر کہتے ہیں کہ اُسامہ صاحب ہمارا ہیرو تھا وہ ہمارا محسن تھا ‘ واﷲ یہی حقیقت ہے وہ ہمارا ہیرو تھا اور رہیگا ۔ اُسامہ شہید کے لیے پورا چترال مل کے رو رہا ہے ‘‘۔

چترال ہی سے کمال عبدالجلیل صاحب نے لکھا ہیِ، ’’ہمارے پیارے، نوجوان، ہر دلعزیز ڈپٹی کمشنر اُسامہ احمد وڑائچ شہید کا  داغِ مفارقت ہم اہلیانِ چترال کے لیے نہایت گراںگزرا ہے۔ چترال سے لوگ شہید ہوئے، وہ سب اپنے اپنے شعبوں کے اعلیٰ ماہرین اور ہمارے لیے سرمایہ تھے۔ ہمیں ان کی جدائی کا بھی بے حد افسوس ہے۔ مگر اُسامہ احمد وڑائچ کی جدائی کا اثر سب سے بڑھکر ہے جو چترال کے تمام گھرانوں اور تمام لوگوں پر پڑا ہے۔ چترال نے اپنا بیٹا کھویا ہے، چترال رو رہا ہے۔ ہم اُسامہ احمد شہید کے والدین اور آپ سمیت دیگر بزرگوں کو سلام پیش کرتے ہیںجن کی تربیت کا اثر ہے کہ اُسامہ کو اﷲ تعالیٰ نے زندگی میں حق و سچ کا ساتھ دینے کا حوصلہ دیا ان کی جدائی نے ہم سب کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے… ‘‘

چترال سے احسان شہابی صاحب نے تحریر کیا ہے، ’’ڈپٹی کمشنر چترال اُسامہ احمد وڑائچ نے جب اس پس ماندہ اور دور افتادہ ضلعے کی ڈپٹی کمشنری کا چارج سنبھالا تو بہت کم عرصے میں عام آدمی کو اپنی موجودگی کا احساس دلادیا۔ یہاں ڈپٹی کمشنروں کی آوت جاوت ہوتی رہتی تھی مگر پہاڑی بستیوں کے غریب مکینوں کے لیے اس میں کوئی دلچسپی کا ساماں نہیں ہوتا تھا۔ مگراُسامہ صاحب کے آتے ہی بیوروکریسی کی روایتی بے حسی اور غفلت کی تان ٹوٹ گئی، حکومت اور انتظامیہ نے انگڑائی لی۔

پھر عوام کا استحصال کرنے والے تاجر، جعلی ادویات کے بیوپاری، منشیات کے اسمگلرز، مضر صحت اشیائے خوردو نوش بیچنے والے گراں فروش اور ناجائز منافع خور دکاندار، ہوٹلوں اور یسٹورانوں کے نام پر گندگی کے مراکز کے مالکان، سڑکوں میں تجاوزات کے ذریعے عوام پر زندگی تنگ کرنے والے خود غرض افراد سب کی جان کے لالے پڑگئے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر صاحب عوام میں مقبول اور عوام دشمنوں میں معتوب رہے۔ اس نوجوان اور فرض شناس افسر نے دن رات ایک کرکے کام کیا۔ نہ بکا اور نہ جھکا۔ خودداری اور عوام دوستی کو اپنا مشعل راہ بنایا۔ اصولوں پر کبھی سودا نہیں کیا چترالی قوم کا یہ محسن جاتے جاتے چترال مستوج روڈ پر لب دریا ایک تقریحی پارک بنا کر دے گیا۔ اب اس پارک کا نام اُسامہ احمد شہید پارک ہوگا۔ بے حسی اور عوام دشمنی کے اندھیروں میں اُسامہ احمد وڑائچ نے اپنے کردار سے فرض شناسی کا جو چراغ جلایا ہے وہ تا ابد روشن و تاباں رہے گا۔ ہم اس وجہیہ و شکیل، ذہین و فطین اور معاملہ فہم نوجوان ڈپٹی کمشنر کو کبھی نہیں بھول پائیں گے ‘‘۔

؎ آسماں تری لحد پہ شبنم آفشانی کرے سبزہ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کرے۔

چترال سے شکیل احمد صاحب نے لکھا ہے۔ وہ صاحبِ ثروت لوگوں کو چترال میں 200بستروں کا اسپتال تعمیر کرنے کی ترغیب دیتا تھا۔ صنعتکاروںکو چترال آکر  سرمایہ کاری پر اکساتا تھا۔ وہ  اپنے دور میں لواری  ٹنل مکمل ہونے پر شاداں تھا۔قوم کے لئے کیا ایک نقصان! کیا ایک افسر وہ تھا! حسین سردار چترال سے لکھتے ہیں ’’ اُسامہ شہید ہمیشہ چترال کے لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے‘‘ ۔

برطانیہ سے محمد کلیم صاحب نے لکھا ہے،’’ آپکی بہن کو میرا سیلیوٹ جنہوں نے قوم کو ایسا بے مثال بیٹا تحفے میں دے دیا‘‘ ۔

یو اے ای سے محمد عمران صاحب لکھتے ہیں،’’ قوم کے بہادر بیٹے اُسامہ پر آپکاکالم پڑھتے ہوئے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور پورا کالم نہ پڑھا  جا سکا‘‘ ۔

برونائی سے ڈاکٹر محمد خالد آفندی لکھتے ہیں،’’آپکے بھانجے کا دکھ صرف آپ کا نہیں یہ پوری قوم کا نقصان ہے‘‘۔

کیلیفورنیا سے نعیم صدیقی صاحب لکھتے ہیں،’’آپ سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی نہ ہی شاید آیندہ ہو۔ مگر میں آپ کے دکھ میں شریک ہوں اور اب اُسامہ اور اس کی فیملی میری دعاؤں کا حصّہ بن گئے ہیں۔‘‘

صادق آباد سے محترمہ فاطمہ زاہد صاحبہ نے لکھا ہے، ’’قدرت کی حکمتیں انسان کی ناقص اور محدود عقل سے بہت بلند اور ماوراء ہیں۔ کون جانے کہ اس دھرتی کے لیے دسمبر اتنا جان لیوا اور ستمگر کیوں ثابت ہوتا ہے ۔ برادرم اُسامہ احمد جیسا کہ عوامی آراء سے ثابت ہے مادرِ وطن کے ماتھے کا جھومر تھے جو عوامی خدمت کو عبادت سمجھ کر سر انجام دیتے ۔  مجھے یقین ہے کہ اُسامہ احمد وڑائچ نے کسی قبولیت کی گھڑی یہ کہا ہوگا؎

یہ جو ہم ہیں احساس میں جلتے ہوئے لوگ
ہم زمیں زاد نہ  ہوتے تو ستارہ ہوتے

اُسامہ اور تمام شہداء زمین زاد نہ رہے… ستارے ہوگئے… تا قیامت روشن ستارے …جنت کے روشن چراغ

صرف سینتا لیس گھر سوگوار نہیں پورا پاکستان سسک رہا ہے، یہ بہت بڑا قومی نقصان ہوا ہے۔  رسول اﷲﷺ نے اپنے بیٹے ابراہیم ؓ کی وفات پر فرمایا تھا دل غمگین اور آنکھیں نم ہیں مگر ہم اس کے سوا کچھ نہیں کہیں گے مگر جو اﷲ نے فرمایا۔۔

غم اور دکھ کے ان ایّام میں ہمارا درد بانٹنے والے اور ہمارے ساتھ اظہارِ ہمدردی کرنے والے تمام خواتین و حضرات کے ہم (اُسامہ کے والدین ،بہن بھائی اور ساری فیملی) بے حد مشکور ہیں۔

اُسامہ نے بلاشبہ اپنی تمام تر صلاحیّتیں اور توانائیاں چترال کے عوام کی زندگیوں میںآسانیاں اور بہتری پیدا کرنے کے لیے وقف کردی تھیں۔ مجھے یاد ہے ایک بار دس گھنٹے کا سفر کرکے وہ اسلام آباد پہنچا تو آتے ہی چترال میں سیلاب آنے کی اطلاع مل گئی چند نوالے نگلنے کے بعد صرف آدھے گھنٹے بعد واپس چل پڑا۔ وہاں کی کہانی وہاں کے باشندوں کی زبانی پتہ چلی ہے کہ’’ سیلاب اور زلزلے کے دوران اُسامہ صاحب دفتر نہیں بیٹھے۔ ان کے پاؤںسوجے ہوئے تھے مگر وہ کچّی پگڈنڈیوں اور پہاڑی راستوں پر چل کر ان بستیوں کا پتہ کرنے بھی خود جاتے رہے جہاں ہم بھی کبھی نہیں جاسکتے تھے!!‘‘

بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ سول سروسز میں ایسے لوگ کم کیوں ہیں جو رزقِ حلال کھاکر جرأت و دلیری سے قانون کی حکمرانی قائم کریں اور افتادگانِ خاک کے دکھ درد سمیٹنے میں راحت محسوس کریں۔ ا س سوال کا جواب تلاش کرنے والے اصحاب اُسامہ کی والدہ کی باتیں پڑھ لیں۔ شہید کی والدہ نے اپنے بیٹے کے بارے میں چند باتیں کیں جو اخبارات میں بھی چھپیں۔ والدہ کہتی ہیں،’’ میں نے اُسامہ کو دو باتوں کی سب سے زیادہ تلقین کی پہلے نمبر پر رزقِ حلال اور دوسرا اﷲتعالیٰ کے ہاں جوابدہی کا خیال‘‘۔ گھر ہی سب سے بڑی تربیّت گاہ ہے۔

خدائے برزگ و برتر گواہ ہیں کہ اُسامہ کے والدین اور ہم نے ملکر اس کی ایسی ہی تربیّت کی تھی۔ سروس کے آغاز میں جب وہ مجھ سے بہت سے سوال پوچھتا تو اسے یہی بتایا جاتا تھاکہ پبلک سروس کا مطلب حکمرانوں کی نہیں عوام کی خدمت ہے۔ جن گھروں میں بچوں کو رزقِ حلال اور عوام سے محبّت کی تلقین ہوتی ہے وہیں سے اُسامہ پیدا ہوتے ہیں۔ گھر، اسکول، ٹی وی اور موبائل فونز موجودہ  دور کے بچوں کی شخصیّت تشکیل دیتے ہیں۔اگر کہیں سے بھی ایمانداری، کیریکٹر اورسالمیت کا لفظ ان کے کانوں میں نہیں پڑیگا تو پھر اُسامہ کیسے پیدا ہوںگے؟۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website