counter easy hit

بان کی مون کی انوکھی التجا، وہ کریں تو ٹھیک ہم کریں تو ظلم

Ban Ki Moon

Ban Ki Moon

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
آج جہاں ایک طرف پاکستان میں دہشت گردوں کو پھانسی دینے کا عمل تیزی سے شروع ہو چکا ہے تو وہیں پاکستان مخالف (طالبان کی یار بعض عالمی و سازشی) طاقتیں پاکستان میں بحال کئے گئے پھانسی کی سزاکے قانون اور اِس پر فوراََ ہونے والے عملدرآمد کو مشکوک بنانے پر تُلی بیٹھی ہیں ، آج یہ ٹھیک ہے کہ سولہ دسمبر کو پشاور میں پیش آئے سانحے نے ساری قوم کو بُری طرح سے جھنجھوڑکررکھ دیاہے، اور حکمران ، سیاستدان ،عسکری قیادت ، قومی ادارے اور ساری پاکستانی قوم اِس نقطے پر متحداور متفق ہیں کہ آج اگر مُلک سے دہشت گردی اور بڑھتے ہوئے جرائم کو کنٹرول کرناہے تو ہر صورت میں دہشت گردو ں کو پھانسی کی سزاپر سختی سے عملدرآمدجاری رکھناہوگااور آج ایساہی ہورہاہے جبکہ ہمارے یہاں بعض مذہبی جماعتیں دہشت گردوں کو پھانسی دینے کے عمل کو( اِن سے جوڑے اپنے مفادات کے خاطر) ڈھکے چھپے الفاظ میں مخالفت کرتی محسوس ہورہی ہیں جبکہ اِنہیں اِس موقعے پر ایسانہیں کرناچاہئے کیوںکہ دہشت گردی کسی ایک کا مسئلہ نہیں ہے ساری قوم کا مسئلہ بن چکاہے جس سے مُلک کی ترقی اور خوشحالی متاثر ہورہی ہے تو وہیں عالمی سطح پر مُلک کا وقار بھی مجروح ہورہاہے اور اِسی طرح مُلک کی بعض بڑی سیاسی پارٹیاں جن میں پاکستان پیپلزپارٹی، ایم کیوایم اور دیگر جماعتیں بھی شامل ہیں وہ بھی مُلک سے دہشت گردی کے خاتمے اور بڑھتے ہوئے جرائم کو کنڑول کرنے کے حوالے سے فوجی عدالتوں کے قیام پر اپنے کئی تحفظات اور ایسے مخمصوں میں مبتلاہیںکہ آج اگر جن کا فوری طور پر ازالہ نہ کیاگیاتو ممکن ہے کہ آگے چل کر فوجی عدالتوں کے قیام میں پیچیدگیاں بڑھ جائیں اور اچھابھلایہ عمل تکمیل کو پہنچنے سے پہلے ہی کہیں فائلوں کی نظرہوکررک جائے۔

لہذا..!آج ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ وزیراعظم نوازشریف اور جنرل راحیل شریف فوری طور پر اِس تاثر کو زائل کریں کہ فوجی عدالتوں کا فوری قیام سیاسی مقاصد حاصل کرنے یا بقول سابق صدرآصف علی زرداری کہ ” کہیں ایسانہ ہوکہ میں اور میاں صاحب دونوں اندرہوجائیں“ ایسا ہرگزنہیں ہے جیسا کہ کہا، سُنااور لکھاجارہاہے بلکہ فوجی عدالتوں کا قیام تو خالصتاََمُلک سے دہشت گردوں اور مُلک دُشمن عناصر کا قلع قمع کرنے کے لئے ہے اور اِس نقطے کے پیشِ نظر فوجی عدالتوں کے قیام کا مقصدکسی بھی لحاظ سے سیاسی مقاصد کے لئے نہیں ہے اورایسا نہ ہی آئندہ کبھی ہوگا۔ بہرحال …!ہرزمانے میںوہی اِنسان اچھاکہلاتاہے جو اپنے لئے پسندکرتاہے وہی دوسرے کے لئے بھی پسندکرے ایسے انسان کوہی دنیاقدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے مگر آج افسوس کے ساتھ یہ کہناپڑرہاہے کہ سانحہ پشاور کے بعد جب ہمارے مُلک میں دہشت گردوں کو پھانسی دینے کا عمل شروع ہوگیاہے تو اِس پرامریکااوریورپی ممالک سمیت اقوام ِ متحدہ اور اِنسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کوبہت تکالیف ہورہی ہے یہ اپنے یہاں جس طرح سے چاہیں جرائم پیشہ عناصر کو عبرتناک سزائے موت دیں تو ٹھیک مگر ایساجب ہم لوگ کریں تو یہ اِن کے نزدیک اِنسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے۔

اَب اِسی کو ہی دیکھ لیں پچھلے ہی دِنوں یوں ہی بیٹھے بیٹھائے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون نے وزیراعظم نوازشریف کو ایک فون کھڑکھڑادیاکہ ” پاکستان سزائے موت پر پابندی لگائے،حکومت اِنسانی حقوق پامال کرنے والا فیصلہ واپس لے“اُس وقت بانکی مون ( ہانکی مون) کے اِس حکم یا التجاپروزیراعظم نوازشریف نے جو ٹکہ ساجواب دیاوہ بھی قابلِ تعریف ہے اُنہوں نے بڑی ہمت کرکے جواب دیاکہ”دہشتگردکسی رعایت کے مستحق نہیں پھانسی پر عملدرآمدنہیںروک سکتے“ گویاکہ وزیراعظم نے کہہ دیاہے کہ اَب جس کا جو جی چاہے کرلے ہم اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اگر پھر بھی امریکا اور عالمی برادری یا عالمی اِنسانی حقوق کی تنظیمیںپاکستان میں سزائے موت اور پھانسی کی سزاکی بحالی پر پاکستان کو اپنی تنقیدوں کا نشانہ بنارہی ہیں تو اِنہیں پہلے اپنے گریبانوں میں جھانک لینا چاہئے کہ وہ خود اپنے یہاں سزائے موت کے مجرموں کے معاملے میں کتنے اِنسانی حقوق کا خیال کرتی ہیں اور اِنہوں نے گوانتاموبائے جیل میں قیداِنسانوں کو کتنااِنسانی حقوق دِلانامیں اپنا کرداراداکیاہے ، جو ہمیں درسِ انسانی دی رہی ہیں جبکہ یہ ہمارادین بھی کہتاہے کہ قاتل کو قتل کرو کیوں کہ قصاص میں اِنسانوں کی زندگیاںاور معاشرے کی بھلاہے۔

آج اِس سے انکار نہیں ہے کہ ازل سے ہی دنیا کا یہ اُصول رہاہے کہ مجرم کو سزااورخیرکو عطاہے یہ و طیرہ ہر زمانے کی ہر تہذیب و تمدن اور ہر انسان کی زندگی کا حصہ رہاہے کیوں کہ ایسے ہی اصولوں سے زمانے پنپے ہیں او رتہذیبیںپروان چڑھی ہیں آج بھی دنیا کے جن ممالک کے معاشرے اِن اُصولوں پر قائم و دائم ہیں اُن ہی ریاستوں کی سوسائٹیز میں چیک اینڈبیلنس کا مثالی نظام بھی قائم ہے اور جن ممالک کے معاشرے میں مجرموں کوبچانے اوراِنہیں عطا کرنے اور بے گناہوں کو سزاکارجان کرسزائیں دینے کا رواج ہے اُن ہی ممالک اور معاشرے میں بگاڑ پیداہواہے ایسی ہی ایک زندہ مثال میرے دیس پاکستان میں بھی باآسانی دیکھی جاسکتی ہے جہاں برسوں سے حکمرانوںکے اشاروں پر مجرموں کو بہانے بہانے سے نوازہ گیا حتی ٰ کہ سزائے موت کے مجرموں کی سزائیں بھی صدرِ پاکستان نے معاف کیں اور آج بھی یہ حق صدرِ پاکستان کو حاصل ہے کہ جو جہاں تو کسی بھی سنگین جرم میں سزائے موت کے حق دار کی ایک اپیل پر اُس کی سزائے موت معطل کرسکتے ہیں اور اِن جیسوں کو بچانے کے لئے بہت سے معاملات میں اپنے مخالف بے گناہوں کو مجرم بناکر پیش کیا گیااور اِنہیں سزائیں دی گئیں یوں میرے دیس میں اصل مجرم بچ گیا اور بے گناہ کو سزاہوئی۔

آج بھی یہ پریکٹس جاری ہے اور خداجانے کب تک ایساہوتارہے کہ صدرمملکت سزائے موت کے مجرموں کی سزائیںمعاف کرتے ہیں اور میرے دیس میں معصوم لوگ مارے جاتے رہیں اور دہشت گرداور مجرم آزاد فضاو¿ں میں سانس لیتے رہیںآج اِس پریکٹس کا قوم کو خمیازہ اَب تک مُلک میں ہونے والی دہشت گردی سے اپنے ہزاروں لوگوں اور سانحہ پشاورمیں اپنے 138معصوم پھول جیسے بچوں کی شہادت اور 200سے زائد کے زخمی ہونے کی صورت میں بھگتناپڑاہے ،آج بس ضرورت اِس امر کی ہے کہ پارلیمنٹ سے آئین میں فوری طور ترمیم کی جائے اور صدرِمملکت سے یہ حق لیاجائے کہ وہ سنگین جرائم میں ملوث سزائے موت کے حقدار مجرموں کی ایک اپیل پر اِن کی سزامعاف نہ کرسکیں تاکہ اِنہیں فوری طور پر سزائے موت دی جاسکے اِس طرح مُلک سے دہشت گردی اور جرائم کے بڑھتے ہوئے تناسب کو کم اور روکاجاسکے۔ اگرچہ آج سانحہ پشاور کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے سنگین جرائم میں ملوث سزائے موت کے مجرموں پر عائد پھانسی کی پابندی کے خاتمے کا اعلان کردیاہے اور اِس پر فوری طور پر عملدرآمدبھی شروع ہوچکاہے آج وزیراعظم نواز شریف کے اِس اقدام کوساری پاکستانی قوم مُلک اور قوم کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لئے احسن اقدام قراردے رہی ہے اور اِس میں اپنی بقاءو سا لمیت کی راہ تلاش کررہی ہے تووہیں یہ پُراُمیدبھی ہے کہ اَب اِس قانون سے مُلک میں دہشت گردی اوربڑھتے ہوئے جرائم پر قابوپانے میں بھی خاصی پیش رفت ہوگی تومُلک بھی ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکے گا۔

اَب اِسی کے ساتھ ہی آخرمیں دُعاہے کہ اللہ ہماری مُلکی قیادت کو ثابت قد م رکھے اور اِن کے دِلوںمیں اپنا اور روزِ قیامت کا خوف پیداکردے جس روز اللہ اِن کی ذمہ داریوں کا حساب لے گا اور اِن سے یہ بھی ضرور پوچھے گاکہ تمہاری حکومت میں جب تم طاقتورتھے تو ہزاروں بے گناہ معصوم اِنسانوں کا خون کیوں اورکیسے ہوا…؟؟ہم نے تمہیں جو طاقت سونپی تھی تم نے اُس طاقت اور اپنے وسائل کااستعمال اپنے شہریوں کو دہشت گردوں اور مُلک دُشمن عناصر سے بچانے کے لئے کیوں نہیں کیا…؟اگرآج ہمارے حکمران بانکی مون (ہانکی مون ) یا امریکا سمیت عالمی برادری اور عالمی اِنسانی حقوق کی تنظیموں کے دباو¿میں آکردہشت گردوں اور مجرموں کو پھانسی کی سزاپر پھر پابندی عائد کردیتے ہیں تو پھر یہ بھی اللہ اِن سے روزِ قیامت پوچھے گاکہ ” تم کو حکمرانی میں نے دی تھی یا اِن لوگوں نے جن کے دباو¿ کی وجہ سے تم نے مجرموں کو پھانسی کی سزاسے معاف کردیاتھا…؟؟؟؟ سوچیںحکمرانوں تب تم کو کون بچانے آئے گا….؟؟؟

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com