counter easy hit

غریب عورتیں ہر کام کر لیتی ہیں ، الٹا بھی سیدھا بھی ، جائز بھی ناجائز بھی ، مگر پاکستان کی امیر عورتوں کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔ بی بی سی پر شائع ہونے والی ایک انوکھی رپورٹ

لاہور(ویب ڈیسک)آج کے دور میں کامیاب قیادت کرنے کی کنجی اثر و رسوخ میں ہے نہ کہ اختیار میں اور یہی وجہ ہے کہ میڈیا اثر و رسوخ کے استعمال میں لیڈر بن چکا ہے۔ اس کے پاس پالیسیوں اور لوگوں کے رویے تبدیل کرنے کی طاقت ہے۔

نامورطالبہ اور بلاگر ریحاب شیخ اپنی ایک بی بی سی میں شائع رپورٹ میں لکھتی ہیں۔۔۔۔ پاکستان، خاص کر سندھ اور لاڑکانہ جیسے اس کے دیہی علاقوں میں صرف خاندانی ؟ھانچے کی وجہ سے خواتین کو ظالمانہ انداز میں دبایا جاتا ہے۔ یہ وہ نظام ہے جو عام طور پر مردوں کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ خواتین کا کردار گھریلو معاملات تک محدود ہے جیسے کہ کھانا پکانا، صفائی کرنا، بچے پالنا، اور شوہر سمیت فیملی کے دیگر افراد کی دیکھ بھال کرنا۔روز مرہ زندگی میں تقریباً ہر خاتون کو تعصب اور صنفی امتیاز کا سامنا ہوتا ہے۔ لاڑکانہ میں رائج شدید مرد پرست نظام خواتین کو اپنی مرضی کے فیصلے کرنے یا آزادی سے گھومنے کی اجازت نہیں دیتا۔ عموماً انھیں گھروں تک محدود رکھا جاتا ہے اور گھر کے باہر کی دنیا سے بے خبر رکھا جاتا ہے۔یہاں تک کہ خواتین کو تعلیم کے حق سے دور رکھا جاتا ہے، اور انھیں خریداری کرنے یا عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے بھی گھر سے باہر نہیں جانے دیا جاتا۔ ان کے لیے تو مساوی حقوق مانگنا ابھی ایک خواب ہے۔اپنی انٹرن شپ کے دوران مجھے حقیقی طور پر لاڑکانہ اور اس کے قریبی اضلع کی خواتین سے ملنے کا موقع ملا۔

میں نے دیکھا کہ دیہی خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ محنتی اور ہنر مند ہیں، اور ان میں کمانے کی صلاحیت بھی زیادہ ہے۔میں نے دیکھا کہ مرد ایک وقت میں ایک کام کر رہے تھے، چاہے وہ دکانداری ہو یا کاشت کاری جبکہ خواتین میں بیک وقت کئی مختلف کام کرنے کی صلاحیت تھی۔ وہ کھیتوں میں مردوں کی مدد کرتی تھیں، گھر سنبھالتی تھیں اور سلائی کڑھائی جیسے کام کر کے اضافی آمدن بھی بناتی تھیں۔مگر بات کچھ یوں ہے کہ خواتین کی شراکت کو کبھی مانا نہیں جاتا، گھر کی سطح پر بھی اور قومی سطح پر بھی۔ مرکزی دھارے کے میڈیا میں ڈراموں، مباحثوں اور دیگر پروگراموں کی مدد سے عام طور پر خواتین کے مسائل اور امیر طبقے کی خواتین کی کامیابیوں کا ذکر رہتا ہے۔ دیہی خواتین کی صلاحیتوں اور مسائل پر کم ہی بات ہوتی ہے۔ان مشکلات کے باوجود لاڑکانہ کی کچھ خواتین نے مختلف شعبوں جیسے کہ تعلیم، سائنس، کاروبار، اور سیاست میں اپنا نام بنایا ہے۔ اگر میڈیا پر ان خواتین کی کامیابیوں کو اجاگر کیا جائے تو وہ دیہی خواتین کے لیے رول ماڈل بن سکتی ہیں۔دیہی سندھ کی زیادہ تر خواتین کو اپنی کھوئی ہوئی آواز واپس پانی ہے اور اسے دنیا بھر تک پہنچانا ہے۔ انھیں خود کو مشکلات سے نکالنے کے لیے زیادہ کوشش کرنی ہے تاکہ وہ مرد سرستی سے نکل سکیں۔ مگر حکومت اور معاشرے کو اس کے لیے ماحول ساز گار بنانا ہوگا۔ کوئی بھی معاشرہ اپنی خواتین کی صلاحیتوں کا بھرپور فائدہ اٹھائے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ مگر خواتین کی صلاحیتوں کا بھرپور فائدہ حاصل کرنے کے لیے مواقع اور مساوی حقوق خواتین کو دینے ہوں گے۔میڈیا کے پاس خواتین کی صلاحیتوں کو دیافت کرنے اور اجاگر کرنے کی کنجی ہے اور تنگ نظری کے خلاف آواز اٹھا سکتا ہے۔ انھیں دیہی خواتین کی معاشرتی اور معاشی آزادی کا سبق دینا چاہیے۔

 

اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں
اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔