counter easy hit

عمران خان کے دور حکومت میں فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کی جائے گی یا نہیں

اسلام آباد (ویب ڈیسک) پہلی آئینی ترمیم جسے حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے پاس کروانے کی کوشش کرے گی وہ فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع ہے جس کے ذریعے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار سویلین افراد پر مقدمہ چلایا جاتا ہے۔ آرٹیکل 10اے کو اٹھارویں ترمیم کے ذریعے آئین میں شامل کیا گیا نامور صحافی طارق بٹ اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ جو ملزم کے سول حقوق کا تعین اور پاسداری یقینی بناتا ہے اور جو مطالبہ کرتا ہے کہ ملزم کا باقاعدہ طریقے سے منصفانہ ٹرائل ہو۔ مسلم لیگ نون کے سینئر رہنما احسن اقبال نے دی نیوز کو بتایا کہ حزب اختلاف کی جماعتیں متوقع طور پر فوجی عدالتوں کی توسیع پر مشترکا موقف اپنائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اصل آئینی ترمیم پر سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلےکو مدنظر رکھیں گے جس نے یہ اختیارات فوجی عدالتوں کو دئیے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ یہ ان کی جماعت کا دور جس میں اس طرح کے فورمز کو یہ اختیار دیا گیا۔ پی پی پی کے رہنما چوہدری منظور نے اس نمائندے کو بتایا کہ اگر دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے تو فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں سے فوجی عدالتوں کی توسیع پر مشاورت کرے گی۔ حزب اختلاف کے ساتھ اپنی عمومی سخت موقف میں متعدد موضوعات پر نرمی پیدا کرتے ہوئے تحریک انصاف اب فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کی خاطر مذاکرات کی خواہشمند ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت اور سیاسی حریفوں کی تجویز کے مطابق حکومت پہلے ہی قومی احتساب آرڈیننس میں متفقہ ترامیم لانے کیلئے حزب اختلاف سے بات کر رہی ہے۔ ایک معروف ن لیگی رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر دی نیوز کو بتایا کہ حکومت نے ان سے رابطہ کر کے آئینی بل پر حمایت طلب کی ہے۔ اسی طرح کی بات پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے بھی کی۔ دونوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے بعض رہنما اپنے تحفظات کی وجہ سے آئینی ترمیمی بل کی حمایت نہیں کریں گے قطع نظر اس کے کہ ان کی پارٹی کیا موقف اختیار کرتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے چند رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ ان کے بعض ایم این ایز جو فوجی عدالتوں کے مخالف ہیں، سیٹ اپ چلتے رہنے کیلئے ووٹ نہیں دیں گے۔ ایک ن لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ وہ اس ترمیم کی حمایت نہیں کریں گے۔ ان کے مطابق فوجی عدالتوں کے لئے اس طرح کے مقدمے نمٹانے کیلئے چار سال کا عرصہ کافی ہے، ، ہمارے یہاں انسداد دہشت گردی ایکٹ نافذ ہے جو اس طرح کے ملزمان کے خلاف تیز تر کارروائی کرتا ہے۔