counter easy hit

عراق میں حسین اور نوجوان لڑکیوں کی شامت ، ایک کے بعد ایک درندوں کا نشانہ بننے لگی ، اس خوبصورت مسلم لڑکی کے ساتھ کیا واقعہ پیش آ گیا ؟ جانیے

بغداد (ویب ڈیسک) تشدد زدہ اور خانہ جنگی کا شکار ملک عراق میں گزشتہ ماہ میں ایک ہفتے کے دوران ایک سماجی کارکن اور ایک انسٹاگرام اسٹارز خاتون کے پراسرار قتل نے ملک میں بے چینی پھیلادی تھی۔ مگر اب خبر آئی ہے کہ سابق مس عراق شیما قاسم قتل کی دھمکیاں ملنے پر اپنے وطن کو چھوڑ کر لبنان منتقل ہوگئیں۔



ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق سابق مس عراق شیما قاسم قتل کی دھمکیاں ملنے پر عراق چھوڑ کر لبنان منتقل ہوگئیں ہیں۔ عراق کے مقامی میڈیا کے مطابق شیما قاسم نے بتایا کہ انہیں ایک شخص کی جانب سے قتل کی دھمکیاں دی جارہی تھیں، جس نے اپنی شناخت داعش کے رکن کے طور پر کرائی اور کہا کہ ‘اب تمہاری باری ہے’۔ انہوں نے خبر شائع کرنے والی ویب سائٹس کو بتایا کہ ‘مجھے قتل کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، میری زندگی خطرے میں ہے، بہت سے لوگوں کے قتل نے مجھے خوف زدہ کردیا ہے’۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘میں یہاں رہنے کو غیر محفوظ تصور کرتی ہوں اس لیے میں عراق چھوڑ کر لبنان آگئی ہوں’۔ 2015 میں مس عراق منتخب ہونے والی شیما قاسم نے 30 ستمبر کو آن لائن اسٹریمنگ کے ذریعےروتے ہوئے بتایا تھا کہ انہیں بھی نامعلوم افراد سے قتل کی دھمکیاں ملی ہیں۔ شیما قاسم کے مطابق انہیں مختصراً بتایا گیا کہ قاتلوں کا اگلا نشانہ سابق مس عراق ہیں۔ اس سے قبل شیما قاسم نے ملک میں ایک انسٹاگرام اسٹار تارا فریس کے پر اسرار قتل کے بعد فوری طور پرسوشل میڈیا کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ شیما قاسم نہ صرف سابق حسینہ ہیں، بلکہ ان کا شمار عراق کی 6 مشہور ترین سوشل اسٹارز میں بھی ہوتا ہے اور ان کے انسٹاگرام پر تقریباً 30 لاکھ فالوورز ہیں۔

شیما قاسم نے سوشل میڈیا کو خدا حافظ کہنے اور خود کو قتل کی دھمکیاں ملنے کا انکشاف ایسے وقت میں کیا تھا جب 3 دن قبل ہی عراقی دارالحکومت بغداد میں ماڈل اور انسٹاگرام اسٹار تارا فریس کو قتل کیا گیا تھا۔ مڈل ایسٹ آئی کے مطابق 22 سالہ تارا فریس کو بغداد شہر میں گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔ اس واقعہ سے 2 دن قبل ہی عراق کی ایک معروف خاتون سماجی کارکن کو قتل کیا گیا تھا، خاتون سماجی کارکن سعود العلی کو عراق کے شہر بصرا کے معروف علاقے میں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ خاتون سماجی کارکن کو ایسے وقت میں ہلاک کیا گیا جب وہ حکومت مخالف مظاہرے کرنے اور بصرہ کے کئی علاقوں میں پانی کی قلت سمیت دیگر اہم سماجی مسائل کے حل کے لیے کوشاں تھیں۔ سعود العلی کو قتل کیے جانے سے قبل رواں برس اگست میں ہی عراقی دارالحکومت بغداد میں بیوٹی سیلون سے وابستہ 2 خواتین کو قتل کیا گیا تھا۔بغداد میں واقع بیوٹی سیلون کی مالک راشع الحسن اپنے گھر میں پراسرار طور پر مردہ پائی گئیں تھیں، اس کے ایک ہفتے بعد ہی بیوٹی سیلون کی مالک رفیع الیسری بھی گھر میں پراسرار طور پر مردہ پائی گئی تھیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ عراق میں سلسلہ وار خواتین کی پراسرار ہلاکتوں اور قتل کے واقعات کے پیچھے کون ہیں اور ان کے کیا محرکات ہیں، اس حوالے سے حکومت نے تاحال کوئی سراغ نہیں لگایا۔ سلسلہ وار خواتین کے قتل پر سوشل میڈیا پر متحرک کئی خواتین خوف زدہ ہیں، جب کہ نوجوان لڑکیوں میں بھی خوف پایا جاتا ہے۔ دوسری جانب یہ خیال بھی کیا جا رہا ہے کہ خواتین کے سلسلہ وار قتل کے پیچھے شدت پسند تنظیم داعش ملوث ہوسکتی ہے، تاہم اس کے ملوث ہونے کے کوئی واضح شواہد نہیں ملے۔