counter easy hit

کرکٹ میں بھی کچھ چیزیں سیاسی ہیں :ہارون رشید

اسلام آباد: دو سے تین سال تک ملک میں انٹرنیشنل مقابلے بحال ہو جائیں گے ، ہوم سیریز کیلئے مختلف ممالک کے بورڈز سے بات چیت جاری ہے: سینیٹ کمیٹی کو بریفنگ

Some things are also political in the cricket: Haroon Rashidپاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈائریکٹر آپریشنز ہارون رشید نے اعتراف کیا ہے کہ کرکٹ میں بھی کچھ چیزیں سیاسی ہو چکی ہیں ،سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کے سامنے ان کا کہنا تھا کہ دو سے تین سال تک ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہو جائے گی،ہوم سیریز کیلئے مختلف ممالک کے کرکٹ بورڈز سے بات چیت جاری ہے ،سیکیورٹی سے متعلق فیکا کے تمام تر تحفظات دور کر دیئے ہیں،کرکٹ کا ڈھانچہ عمران خان اور ماجد خان کی سوچ کے مطابق ڈھالنے کا جائزہ لے رہے ہیں، کلب کرکٹ بھی ایسوسی ایشنز کے بجائے پی سی بی کی ذمہ داری ہے۔
تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز اسپورٹس فیڈریشنز کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے قائم خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے ڈائریکٹر پی سی بی آپریشنز ہارون رشید نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کرکٹ میں بھی کچھ چیزیں سیاسی ہو چکی ہیں اور سیاسی مداخلت سے انکار ممکن نہیں لیکن پاکستان کرکٹ کا مستقبل ڈپارٹمنٹس اور ریجنز کے ضم ہونے سے مشروط ہے اور اصل مسئلہ یہ ہے کہ ادارتی اور علاقائی سطح کی کرکٹ کو چلانے والے اپنے اختیارات کے خاتمے سے خوفزدہ ہیں لہٰذا وہ ایسا نہیں چاہتے۔
ان کا کہنا تھا کہ جہانگیر خان،جاوید میانداد اور ظہیر عباس جیسے کھلاڑیوں کو ان کے اداروں نے نوکریوں سے نکالا اور اس بات کے پیش نظر کھلاڑیوں کیلئے نوکری کی ضمانت بھی ضروری ہے ۔ہارون رشید کے مطابق وہ سابق کپتانوں عمران خان اور ماجد خان کی سوچ کے مطابق کرکٹ کا ڈھانچہ تبدیل کرنے کا جائزہ لے رہے ہیں اور بہت جلد نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئے گی۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ رفتہ رفتہ بحال ہو رہی ہے اور دو سے تین سال کے عرصے تک ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کے میچز معمول کے مطابق ہونے لگیں گے کیونکہ ملک میں سیکیورٹی کے حوالے سے کھلاڑیوں کی عالمی تنظیم فیکا کے تحفظات مکمل طور پر دور کر دیئے ہیں۔سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کو مطلع کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہوم سیریز کیلئے مختلف ممالک کے کرکٹ بورڈز سے بات چیت جاری ہے اور آئندہ برسوں کے دوران پاکستان میں انٹرنیشنل میچز معمول کے مطابق کھیلے جائیں گے۔
ہارون رشید نے اجلاس میں اس بات سے بھی آگاہی دی کہ ملکی کرکٹ ایسوسی ایشنز پاکستان میں کلب کرکٹ کو آرگنائز نہ کروا سکیں اور یہ ذمہ داری بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کو اٹھانا پڑتی ہے جبکہ سوئی سے لے کر جہاز تک کا خرچہ پی سی بی برداشت کرتا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سپر لیگ کی بدولت اب پیسہ آنا شروع ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت پی سی بی کو ایک روپیہ بھی فنڈ نہیں دیتی لیکن بورڈ سالانہ 25کروڑ کا ٹیکس متعلقہ اداروں کو ادا کرتا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوااور فاٹا سے زیادہ ٹیلنٹ سامنے آ رہا ہے جبکہ دوسرے صوبوں میں بھی صلاحیت کو ابھارنے پر کام جاری ہے جس کیلئے ایسوسی ایشنز کو لاتعداد گراؤنڈز بنا کر دیئے حالانکہ تربت میں سیکیورٹی وجوہات کے سبب ٹرائلز لینے سے روکا گیا۔انہوں نے سینیٹ کی کمیٹی کے اراکین کو آگاہ کیا کہ غریب گھرانوں کے لڑکے کھیل کی بدعنوانی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں اور اس قسم کی منفی سرگرمیوں میں ملوث کھلاڑیوں کو چند سالہ سزا کے بعد انہیں دوبارہ کھیلنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔
انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ خواتین کرکٹ کی سطح پر پی سی بی کو مشکلات کا سامنا ہے جس کیلئے ویمنز کرکٹ کو پانچ زونز میں تقسیم کررہے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی خواتین کرکٹرز ٹاپ لیول ٹیموں سے مقابلے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہیں لیکن اس وقت پول میں 40 کے قریب خواتین کرکٹرز موجود ہیں جن میں سے بہترین ٹیم منتخب کی جاتی ہے ۔سینیٹ کی خصوصی کمیٹی نے 27 نومبر کو ہونے والے آئندہ اجلاس میں صوبائی وزرا ئاور سیکریٹریز کھیل کو بھی بریفنگ کیلئے طلب کرلیا ہے۔