counter easy hit

”دھرنا سیاست” اور اسلام آباد

پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد ایک پھر “دھرنا سیاست” کی نظر ہوگیا ہے۔ تحریکِ لبیک پاکستان کے کارکنان اور لیڈر حضرات نے پچھلے کئی دنوں سے اسلام آباد میں دھرنا دے رکھا ہے اور ان کے اس دھرنے کے وجہ سے جڑواں شہر مکمل طور پر مفلوج ہو چکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت بس تماشہ دیکھ رہی ہے۔ اس سارے تماشے میں نقصان صرف ایک عام شہری کا ہو رہا ہے جو اس مظاہرے کی وجہ سے اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہو کر رہ گیا ہے۔

جمہوری ممالک میں احتجاج اور دھرنے مسائل کا حل ہوا کرتے ہیں لیکن ان با شعور معاشروں میں احتجاج کرنے سے پہلے اس بات کی یقین دہانی کی جاتی ہے کہ اس سے عام شہریوں کو کوئی مسئلہ نہ درپیش آئے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب اسلام آباد کو دھرنے کے نام پر بند کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہان بھی اسلام آباد میں اپنی سیاست چمکانے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔

دارالحکومت اپنے ملک کی شان و شوکت اور قانون کی عکاسی کرتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ اپنے ملک کا امیج ظاہر کرتے ہیں۔ بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے پیارے ملک پاکستان کا دارالحکومت شائد صرف دھرنوں کے لیے ہی بنا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے 2013 میں “سیاست نہیں ریاست بچاؤ” نامی تحریک کے ذریعے اسلام آباد کو بند کیا جس سے نہ صرف عام شہری کی زندگی میں مشکلات پیش آئیں بلکہ ملکی معیشت کو بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔

14 اگست2014 کو شروع ہونے والا تاریخ ساز دھرنا کون بھول سکتا ہے جب طاہر القادری اور عمران خان اسلام آباد میں حکومت گرانے کے لیے خیمہ زن ہوئے۔ حکومت کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی انہیں مذاکرات کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کی لیکن ان دونوں صاحبان نے 127 دنوں تک پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کو مفلوج بنائے رکھا ۔ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق طاہر القادری اور عمران خان کے دھرنے سے پاکستان کی معیشت کو 450 بلین روپے کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔اس کے علاوہ پاکستان کا امیج بھی پوری دنیا میں گندا ہوا۔

تحریک لبیک کا اسلام آباد میں جاری دھرنا کسی بھی قسم کے ایجنڈے کی عکاسی نہیں کرتا۔ بظاہر تو یہ نظر آتا ہے کہ اپنی سیاسی جماعت کو پروان چڑھانے اور اس کی مفت میں پبلسٹی کرنے کے لیے انہوں نے اسلام آباد کا رُخ کیا ہے لیکن انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہئیے کہ مقبولیت دھرنوں سے نہیں ملتی بلکہ کردار سے ملتی ہے۔ دھرنوں میں کرادار کشی کرنے سے بھی مقبولیت نہیں ملتی۔ عوام کے دلوں میں گھر کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔

دھرنے کے نام پر سیاست کرنے والے لوگ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے حکومت اور آئین کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے تو یہ انکی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ جس آئین کے تحت وہ احتجاج کرنے کا حق رکھتے ہیں وہی آئین حکومت کو عام شہری کے حقوق کی پاسداری کروانے کا حق بھی دیتا ہے۔ اس لیے مہربانی کر کے اسلام آباد کی طرف رُخ کرنے کی بجائے آئین اورقانون کے مطابق پارلیمنٹ میں اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑیں تو زیادہ بہترہوگا۔ اس سے نہ ملکی معیشت کو نقصان ہوگا اور نہ ہی عام شہری کی زندگی مسائل سے دوچار ہوگی۔