counter easy hit

ہمارے مدرسے

مجھے اپنی تعلیم گاہوں سے دینی اور دنیاوی تعلیم کے حصول پر فخر ہے مجھے اپنے وقت کے عظیم مدرسوں کی رہنمائی میں پڑھنے کا شرف حاصل رہا اور مدرسوں میں پڑھنے والے روایت پسند کو یہ بات بالکل بھی ہضم نہیں ہو پاتی ہے کہ آج کے دورمیں تعلیم برائے فروخت ہے اور اس فروخت کو روکنے یا اس میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ ابھی چند دن پہلے میری نظر سے حکومت کی جانب سے ایک اشتہار گزرا ہے جس میں والدین کو یہ بتایا گیا ہے کہ جن نجی تعلیمی اداروں میں ان کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ تعلیمی ادارے سالانہ پانچ فیصد کی شرح سے فیسوں میں اضافہ کر سکتے ہیں۔

میں بڑی مدت سے اس انتظار میں تھا کہ کوئی بااختیار اس سلسلے میں بات کرے تو میں بھی قلم اٹھاؤں۔ پچھلے سال بھی ان نجی تعلیمی اداروں کے مالکان نے فیسوں میں ہوشرباء اضافہ کیا جس کے خلاف والدین ڈٹ گئے اور حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ اس تعلیمی مافیا کے خلاف اقدامات کرے۔ اب جب کہ حکومت نے اس سلسلے میں والدین کوایک اطلاع دی ہے کہ نجی تعلیمی ادارے پانچ فیصد سالانہ اضافہ کر سکتے ہیںتو گویا حکومت نے قانوناً ان کو ہر سال فیسیں بڑھانے کی اجازت دے دی ہے اور اب وہ ہر سال اسی شرح سے اضافہ کرتے رہیں گے اور بات نہ جانے کہاں کی کہاں تک جا پہنچے گی۔

بد قسمتی یہ رہی ہے کہ ہماری حکومتیں ایک مدت سے سرکاری اسکولوں کے ذریعے وہ تعلیمی نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں جو کہ ماضی میں انھی سرکاری تعلیمی اداروں سے ہی حاصل ہوتے تھے یا تو وہ استاد نہیں رہے اور یا پھر نجی تعلیمی اداروں نے ایسا گٹھ جوڑ کر لیا ہے کہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ نے بچوں پر کم توجہ دینی شروع کر دی ہے۔اس صورتحال کا شکار والدین ہوئے ہیں جو کہ سرکاری اسکولوں کا معیار تعلیم گر جانے کے باعث اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم دلانے پر مجبور کر دیے گئے ہیں اوریہ نجی تعلیمی ادارے والدین کے تعلیمی شوق کو اپنی منافع خوری کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔ یہ نجی تعلیمی ادارے والدین پر روز بروز اپنے بوجھ میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں لیکن ان کی تعلیم کا معیار بھی ان کی فیسوں سے مطابقت نہیں رکھتا اور اکثر سالانہ نتائج کے موقع پر یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ فلاں سرکاری اسکول کا غریب طالبعلم یا طالبہ پوزیشن لے گئے۔

ہمارے وزیر اعلیٰ پنجاب نے سرکاری شعبہ میں نئے تعلیمی اداروں کی داغ بیل بھی ڈالی تھی لیکن معلوم نہیں کیا ہوا کہ وہ سفر جو کہ جنوبی پنجاب سے شروع ہو ا تھا اس کو میٹرو کھا گئی یا نجی تعلیمی اداروں کے مالکان اس کی راہ میں رکاوٹ بن گئے حالانکہ جس طرح بھاری رقوم اس تعلیمی منصوبے کے لیے مختص کی گئی تھیں وہ قابل ستائش تھا لیکن یہ سفر رک گیا ہے۔ اگر صوبائی حکومت ضلعی سطح پر ایک بڑا معیاری اسکول اور کالج بنا دے تو چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں کی جانب تعلیم کے لیے کالج کی سطح تک آبادی کی منتقلی کا سفر رک جائے گا جس سے بڑے شہروں پر بوجھ میں بھی کمی آئے گی اور چھوٹے شہر بھی ترقی کے دھارے میں خود بخود شامل ہو جائیں گے۔

پنجاب کی سطح پر اس کے پینتیس اضلاع میں حکومت کی جانب سے ایک بڑے اسکول اور کالج کی تعمیر کوئی بڑا معاملہ نہیں مگر اس کے لیے حکمرانوں کو اپنا دل بڑا کرنا ہو گا اور قوم کے معماروں کی معماری کے لیے بڑے شہروں کے لیے بڑے منصوبوں کی اگر ایک سال کے لیے بھی قربانی دے دی جائے تو تعلیمی میدان میں ترقی کا عمل شروع ہو سکتا ہے اور اس کے لیے قرضے بھی لینے پڑیں تو میں یہ گارنٹی دیتا ہوں کہ یہ قوم تعلیمی اداروں کی تعمیر کے لیے قرضوں پر اُف بھی نہیں کرے گی بلکہ حکومت اس معاملے میں سنجیدگی دکھائے تو ہمارے ملک میں ایسے بڑے کاروباری افراد کی کوئی کمی نہیں جو کہ ہر ضلع میں موجود ہیں اور حکومت کے ساتھ اس کام میں اس کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں بات صرف ایک مشنکی ہے اور یہ مشن حکومتی سطح پر ہی شروع کیا جاسکتا ہے۔ بعدمیں اس مشن میںمخیر حضرات کو بھی شامل کیا جائے تو یہ مشن پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے۔

بچوں کو اچھی اور معیاری تعلیم دلانے کا شوق بجا طور پر اس قدر بڑھ چکا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے ہیں کیونکہ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ زیور تعلیم سے آراستگی کے بغیر زندگی کی دوڑ میں مقابلہ ممکن نہیں اور نجی تعلیمی ادارے والدین کی اسی نیک قومی خواہش کا ناجائز فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ حکومت کا جس طرح بازار کی چیزوں پر کوئی کنٹرول نہیں اور دکاندار منہ مانگی قیمتیں وصول کرتے ہیں یہی حال نجی تعلیمی اداروں کا بھی ہے اور یہ ایک ایسا نفع بخش کاروبار بن چکا ہے کہ اگر حکومت ان سے حساب کتاب کر لے تو ان کی ترقی کا پتہ چلے کہ ہر سال ان کی برانچوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہو رہا ہوتا ہے اور لاکھوں کے زمانے اب گئے ان کو کروڑوں کی آمدن ہوتی ہے۔

دنیا کے وہ ممالک جو تعلیم کوسرکاری ذمے داری سمجھتے ہیں ان کے سرکاری اسکولوں میں بھی ہمارے سرکاری اسکولوں کی طرح مفت تعلیم دی جاتی ہے ان کے ہاں بھی نجی اسکول موجود ہیں لیکن ان کے سرکاری اسکولوں کا معیار بھی نجی تعلیمی اداروں کے اگر برابر نہیں تو اتنا کم بھی نہیں کہ وہ ان سے آگے ہوں۔ ہمارے ہاں تو تعلیم ایک صنعت کا درجہ اختیار کر گئی ہے اور اس منافع بخش کاروبار میں بڑے بڑے لوگ حصہ دار بن گئے ہیں جو کہ حکومتی تعلیمی بجٹ کو چند فیصد سے بڑھنے ہی نہیں دیتے تا کہ حکومتی سطح پر تعلیمی معیار معیاری نہ ہو اور والدین مجبوراً نجی تعلیمی اداروں کو ہی ترجیح دیں اور وہ اپنے منافع میں دن دگنا رات چوگنا اضافہ کرتے رہیں۔

ہمارے بچوں کے والدین صرف ایک مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں کہ نجی تعلیمی داروں کی فیسوں کو منجمد کر دیا جائے اور اس بات پر خاص توجہ دی جائے کہ ملک بھر کے تعلیمی ادارے چاہے وہ سرکاری ہوں یا نجی ان کا نصاب تعلیم یکساں ہو اور اس بات کو لازم بنایا جائے اس کے علاوہ نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے فراہم کی جانے والی سہولیات کے مطابق حکومت ایک مدت کا تعین کرے جس کے بعد ان اداروں کے تعلیمی معیار اور والدین کی آراء کو شامل رکھ کر فیسوں میں اضافے کی اجازت دے اس سے حکومت کا ان نجی اداروں پر کنٹرول بھی رہے گا اور والدین بھی مطمئن رہیں گے۔ تعلیم ہمارا قومی مسئلہ ہے اس پر فوری توجہ کی ضروت ہے اس کے بغیر ہم ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔