counter easy hit

پاگل

Mad Man

Mad Man

تحریر : شاہد شکیل
دنیا بھر میں کئی افراد اپنے آپ سے باتیں کرتے ہیں جسے خود کلامی کہا جاتا ہے انہیں جو دیکھتا ہے پاگل سمجھتا ہے حالانکہ ایسے لوگ پاگل نہیں ہوتے بلکہ اپنے حالات سے مقابلہ کرتے اور کسی دوسرے کو ہمراز بنانے سے گریز کرتے ہیں کئی افراد خود کلامی میں اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے ارد گرد کسی کی پرواہ نہیں ہوتی کہ کون سن رہا ہے اور کیا سوچے گا یا کہے گا وہ اپنے مسائل یا حالات سے جنگ کرتے ہیں اور انہیں خود محسوس نہیں ہوتا کہ اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے وہ گالی گلوچ سے بھی گریز نہیں کرتے کیونکہ وہ ایک خواب کی سی کیفیت میں ہوتے ہیں اور سپنے تو سپنے ہوتے ہیں ۔ماہرین کا کہنا ہے اپنے آپ سے باتیں کرنا بالکل نارمل اور عام سی بات ہے اور اگر کسی کو کہیں اکیلے باتیں کرتا دیکھ لیا جائے تو پہلا خیال ہی یہ آتا ہے کہ کیا یہ پاگل ہے،کس سے باتیں کر رہا ہے۔

بے چارے کا دماغی توازن درست نہیں ہو گا وغیرہ،ایسے لوگوں کا دماغ درست ہوتا ہے اور پاگل نہیں کہا جا سکتا بلکہ انسانوں کے لئے صحت مند ہے۔اکثر فلموں میں بھی دکھایا جاتا ہے کہ کوئی ہیرو ،ہیروئین یا کوئی اور کیریکٹر آئینے کے سامنے چند سیکنڈ اپنے آپ سے بات کرتا ہے مثلاً کیا تم یہ کام کر سکتے ہواور انہیں لمحات میں اس کے چہرے پر مسکراہٹ ابھرتی ہے یا کندھے اچکاتے ہوئے سین سے غائب ہو جاتا ہے فلموں کے علاوہ حقیقی زندگی میں ایسے مواقع بہت کم آتے ہیں کہ انسان دن میں کئی بار اپنا چہرہ دیکھے اور اپنے آپ سے بات کرے کیونکہ انسانی ذہن خود کلامی کو پاگل پن تصور کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ کیا میں پاگل ہوں جو اپنے آپ سے باتیں کروں۔

حالانکہ ہر انسان کچھ بولے بغیر دن میں کئی بار اپنے آپ سے باتیں کرتا ہے ایسا نہیں ہونے دونگا ،یہ کس مصیبت سے دوچار ہو گیا ہوں ،سفر سے بہت لطف اندوز ہوا،پتہ نہیں یہ بیماری کب ختم ہو گی وغیرہ ۔ نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے خود کلامی خیالات کو تشکیل دیتی ہے اسکی ایک مثال بچے ہیں وہ سب کے موجود ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ سے باتیں کرتے،گانے گاتے ،ہنستے مسکراتے ہیں تو کیا وہ پاگل ہیں ،ہرگز نہیں بلکہ وہ اپنے خیالات کو اپنے تئیں عملی جامہ پہناتے ہیں مصروف رہتے ہیں ان کے ذہن میں ہر لمحے کئی تصورات جنم لیتے ہیں کئی سوالوں کے جواب بھی خود کلامی میں دیتے ہیں۔

Psychologist

Psychologist

امریکی ماہر نفسیات کا کہنا ہے جو بچے خود کلامی کرتے ہیں وہ بہتر طور پر مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں مثلاً مختلف اقسام کے کھلونوں یعنی لیگو سٹونز کو ترتیب دینا انہیں توڑنا اور پھر جوڑنا ایک مکمل فگر میں ڈھالنا یہ سب کچھ خود کلامی سے ہی پایہ تکمیل پہنچتا ہے اس عمل سے دماغ کی مکمل ٹریننگ ہوتی ہے کیونکہ بار بار ایک ہی عمل کو دہرانے سے دماغی خلیات زیادہ روشن اور اوپن ہوتے ہیں اور بچے دوبارہ غلطی نہیں کرتے۔جرمنی کے ایک پروفیسر نے چند سٹوڈنٹس کو سائیکل کے کچھ پارٹس جوڑنے کو کہا اور ویڈیو ریکارڈنگ بھی کرتا رہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند کے علاوہ تمام سٹوڈنٹس نے کئی بار خود کلامی کرتے ہوئے پارٹس کو جوڑا۔

پروفیسر کا کہنا ہے یہ سٹوڈنٹس پاگل نہیں ہیں بلکہ پارٹس کو مکمل طور پر جوڑنے کیلئے جس محنت سے کام کیا اور مشکلات پیش آنے پر خود کلامی کا رد عمل بالکل نارمل تھا۔پروفیسر ایلفر مین کا کہنا ہے خود کلامی انسان کو پر سکون رکھتی اور حوصلہ افزائی پیدا کرتی ہے ، موٹیویشن اور اکیٹیویٹی دو مختلف الفاظ ہیں لیکن اگر کوئی شخص دوڑ کے مقابلے میں حصہ لیتا ہے اور خود کلامی میں کہتا ہے کہ میں یہ ریس جیت جاؤں گا تو وہ پاگل نہیں بلکہ اپنے اندر ایک جذبہ اور حوصلہ پیدا کرتا ہے کہ میں پر اعتماد ہوں ریس جیت لونگا اور ایسا ہی ہوتا ہے۔

یا اگر کوئی انٹرویو سے قبل یہ سوچتا ہے بلکہ بڑبڑاتا ہے کہ مجھے جاب مل جائے گی تو اسے جاب مل جاتا ہے کیونکہ ان کے اندر جیت کی خواہش ہوتی ہے اور جو لوگ کسی قسم کے عمل کو مشکل سمجھتے اور ابتداء سے ہی یہ سوچتے ہیں کہ کوئی فائدہ نہیں میں ہار جاؤں گا۔ بس یا ٹرین نہیں لے سکوں گا ،کامیابی مشکل ہے کیونکہ میرے مد مقابل ایک منجھا ہوا کھلاڑی ہے ایسے لوگ ہمیشہ ہمت ہارنے اور ناکامی کا شکار ہوتے ہیں۔

Man Talking to Himself

Man Talking to Himself

خود کلامی کا ذہنی عوارض سے کوئی تعلق نہیں البتہ ایسے افراد جو مردہ لوگوں سے باتیں کرتے ہیں یا خیالوں اور تصورات میں کسی ایسے شے کو دیکھتے یا باتیں کرتے ہیں جن کا انکی زندگی سے کبھی کوئی واسطہ نہ تھا اور نہ ہو سکتا ہے ذہنی عوارض میں مبتلا ہوتے ہیں ،مثلاً کئی افراد شراب یا منشیات کے نشے میں دھت بھرے بازار میں خود کلامی کریں انہیں بھی ذہنی مریض کہا جا سکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے خود کلامی پاگل پن نہیں بلکہ ذہن اور یادداشت کی ٹریننگ میں مثبت کردار ادا کرتی ہے خاص طور پر عمر رسیدہ افراد کو باقاعدگی سے خود کلامی کرنا چاہئے تاکہ دیگر افراد کو اپنی طرف متوجہ کیا جائے اور باتوں باتوں میں دوستی کا اظہار ہو ،خود کلامی کے دو فائدے ہیں ایک یہ کہ آپ اپنے مسائل خود حل کرنے کی ہمت اور طاقت رکھتے ہیں دوسرا دیگر افراد کو اپنی طرف متوجہ کرنے میںکامیاب ہو سکتے ہیں۔

دوستی ہونے کے بعد مشترکہ طور پر کئی مسائل اور مشکلات حل کئے جا سکتے ہیں لیکن اگر آپ کی کسی سے رنجش ہے تو برائے مہربانی خود کلامی سے گریز کیا جائے کیونکہ ایسی خود کلامی پاگل پن کہلائی جائے گی اور کئی لوگوں کے لئے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔

Shahid Shakeel

Shahid Shakeel

تحریر : شاہد شکیل