counter easy hit

مطلقہ خواتین سے نکاح کو اسلام نے نیکی کہا ہے، مفتی منیب الرحمن

کراچی: طلاق کا بنیادی سبب والدین کی طرف سے بیٹی کی بے جا طرف داری ہے، افشاں دل فراز ڈرامے منفی پہلو اجاگر کر رہے ہیں، خالدہ خلیق ،لوگ ملازمت پیشہ بہو چاہتے ہیں، فوزیہ پرویز

Islam has said goodness to marriage from absolutely women, Mufti Muneeb-ur-Rehmanہمارے معاشرے میں مطلقہ یا خلع یافتہ عورت کو معیوب و منحوس سمجھا جاتا ہے ۔ اسلام خواتین کے تمام حقوق کی بات کرتا ہے اور انہیں یقینی بھی بناتا ہے ۔ اتنے حقوق کسی بھی مذہب نے خواتین کو نہیں دیئے ۔ اسلام دوسری شادی کی اجازت دیتا ہے تاکہ عورت گھر بسا سکے ، تاہم ہمارا معاشرہ عورت کی دوسری شادی کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتا ۔ مطلقہ یا بیوہ جب دوسرے عقد کی خواہش ظاہر کرتی ہے تو اسے بے باک اور بے حیا سمجھا جاتا ہے ۔ روزنامہ دنیا سے گفتگو میں معروف عالم دین مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ مطلقہ اور بیوہ کو معیوب سمجھنا ہندوانہ سماج کی ناپسند یدہ اور غیر شرعی رسم ہے ۔ نبی ؐ نے مطلقہ اور بیوہ سے نکاح کرکے اس نظریے کو جڑ سے ختم کر دیا۔

مطلقہ خواتین سے نکاح ایک پاکیزہ فعل ہے ۔ نکاح کے ذریعے نسب بھی پاکیزہ اور محفوظ رہتے ہیں اس لیے اسلام نے اسے نیکی کا درجہ عطا کیا ہے۔ طلاق کی بڑھتی ہوئی وجوہ کے بارے میں قانون دان افشاں دل فراز نے کہا کہ طلاق کا بنیادی سبب والدین کی طرف سے بیٹی کی بے جا طرف داری ہے۔ کورٹ میرج میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ سترہ یا اٹھارہ سال کی عمر میں کی جانے والی 90 فیصد شادیاں ناکامی سے دوچار ہوتی ہیں۔ یہ جذباتی فیصلے ہوتے ہیں اور اس رجحان کو پروان چڑھانے والا ہمارا میڈیا ہے۔ والدین کا قصور بھی ہے کہ وہ اپنے کاموں میں اتنے مصروف رہتے ہیں کہ بچوں پر توجہ ہی نہیں دیتے۔ صحافت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے خالدہ خلیق نے کہا کہ بنیادی قصور والدین کا ہے۔ مائیں بچیوں کی اچھی تربیت نہیں کرتیں اور ان کی بے جا حمایت بھی کرتی ہیں۔ پڑھی لکھی لڑکیوں میں طلاق کا تناسب قدرے کم ہے ۔ ٹی وی ڈرامے زندگی کے منفی پہلوؤں کو زیادہ اجاگر کرتے ہیں۔ ڈراموں کے ذریعے گھریلو زندگی میں نئی پیچیدگیاں پیدا کی جارہی ہیں اور طلاق کے نئے طریقے متعارف کرائے جارہے ہیں۔

ڈی ایچ اے کالج کی لیکچرر فوزیہ پرویز کا کہنا تھا کہ زیادہ قصور ماؤں کا ہے ۔ وہ بچیوں کو کالج بھیج کر خود کو بری الذمہ تصور کرتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بچیوں کو بچپن ہی سے اچھے اور برے میں فرق کرنے کا ہنر نہیں سکھایا جاتا۔ اسکول میں جب دوسری بچیوں سے ان کے جھگڑے ہوتے ہیں تو مائیں غیر ضروری طور پر بھی اپنی بچیوں کا ساتھ دیتی ہیں۔ آج کل لڑکیاں زیادہ پڑھ رہی ہیں۔ لڑکی پڑھی لکھی ہو تو چاہتی ہے کہ شوہر اس کے شانہ بہ شانہ چلے۔ جب ایسا نہیں ہوتا تب نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ لڑکوں اور ان کے گھر والوں کے دماغ بھی آسمان پر ہوتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ لڑکی پڑھی لکھی ہو، نوکری کرتی ہو، کسی اچھے عہدے پر ہو۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ پڑھی لکھی اور کیریئر اورینٹڈ لڑکی لائیں گے تو اسے چند سہولتیں بھی دینا پڑیں گی۔

طلاق کا ایک شدید منفی پہلو یہ ہے کہ بچوں کی زندگی مکمل تباہ ہو جاتی ہے۔ طلاق کے وقت میاں اور بیوی اولاد کے مستقبل کے بارے میں بالکل نہیں سوچتے۔ وکلا کا کہنا ہے کہ طلاق کی روک تھام کے لیے ابتدائی جھگڑوں کے وقت ہی مشاورت یعنی کاؤنسلنگ ناگزیر ہے۔ اگر اس پر بھی بات نہ بنے تو عدالت میں مصالحت کرانے کی کوشش کی جائے۔ اس صورت میں بھی کئی طلاقیں رک جاتی ہیں۔ معاشرے کو عورت کی دوسری شادی کے حوالے سے وسعت قلب اور وسعت نظر پیدا کرنی چاہیے۔ عورت کو ہدف استہزاء نہ بنایا جائے۔ طلاق کی صورت میں عورت کو بچوں سے دور کرکے اللہ کے قہر کو آواز نہ دی جائے۔