counter easy hit

‘مجھے فاطمہ کی دیانت پر بھروسہ ہے’

‘مجھے فاطمہ کی دیانت پر بھروسہ ہے’

بونڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ چلانے والی سیدہ غلام فاطمہ—فوٹو بشکریہ: ہیومنز آف نیو یارک
بونڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ چلانے والی سیدہ غلام فاطمہ—فوٹو بشکریہ: ہیومنز آف نیو یارک

ہیومنز آف نیویارک نامی فیس بک پیج کے فوٹوگرافر نے بالآخر سیدہ غلام فاطمہ کے خلاف عائد کیے جانے والے الزامات پر اپنی خاموشی توڑ دی۔

فوٹوگرافر برینڈن اسٹینٹن—۔فائل فوٹو
فوٹوگرافر برینڈن اسٹینٹن—۔فائل فوٹو

سیدہ غلام فاطمہ، فوٹوگرافر برینڈن اسٹینٹن کی سوشل میڈیا پر وائرل ہوجانے والی تصویر کا کردار تھیں، جن کی سچائی اور دیانت کے فوٹوگرافر برینڈن خود گواہ بن کر سامنے آئے ہیں۔سیدہ غلام فاطمہ سے اپنے رابطے کی معلومات بذریعہ ای میل ڈان ڈاٹ کام کو فراہم کرتے ہوئے برینڈن کا کہنا تھا کہ وہ فاطمہ کے کام میں ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان پر پورا بھروسہ رکھتے ہیں۔برینڈن اسٹینٹن کا یہ وضاحتی بیان ایک پاکستانی ویب سائٹ کی جانب سے سیدہ غلام فاطمہ کی این جی او ‘بونڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ’ پر عائد کردہ کرپشن اور بدانتظامی کے الزامات کے بعد سامنے آیا۔پاکستانی ویب سائٹ نے الزام عائد کیا تھا کہ فوٹوگرافر کی شروع کردہ مہم کے نتیجے میں اکھٹا کیے گئے 23 لاکھ امریکی ڈالرز سے فاطمہ نے کوئی واضح کام سرانجام نہیں دیا۔ویب سائٹ کے یہ الزامات کئی پاکستانیوں کے لیے حیرت کا باعث بنے تھے جنہوں نے ہیومنز آف نیویارک کے فوٹوگرافر کی پاکستان آمد اور فاطمہ کی این جی او کے لیے فنڈز اکھٹا کرنے کی مہم کو سراہا تھا۔

تاہم کرپشن اور بدانتظامی کی رپورٹ منظرعام پر آنے کے بعد ایک نئی بحث شروع ہوگئی جس نے سوشل میڈیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

فوٹوگرافر برینڈن اسٹینٹن کے مطابق فاطمہ کو فنڈز کی فراہمی متعدد مراحل میں کی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ ‘فنڈز کی رقم تین قسطوں میں فاطمہ تک پہنچی، پہلی قسط نومبر 2015 میں وصول کی گئی، اس کے بعد سے میں مسلسل فاطمہ سے رابطے میں ہوں اور ہم دو بار ملاقات بھی کرچکے ہیں’۔واضح رہے کہ 17 مارچ کو شائع ہونے والے مذکورہ آرٹیکل میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سیدہ غلام فاطمہ فوٹوگرافر کی مہم کے دو سال گزرنے کے بعد آڈٹ اور معاہدے کی معلومات فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔رپورٹ میں تصاویر بھی شامل کی گئی تھیں جن میں کسی زیر تعمیر عمارت کی تصویر نمایاں تھی، اس نامکمل تعمیر کے ساتھ اس خیال کا اظہار بھی کیا گیا تھا کہ بیشتر حکومتی منصوبوں کی طرح فاطمہ کا منصوبہ بھی کرپشن سے متاثر ہوچکا اور صرف کاغذات کی حد تک محدود ہے۔

تاہم اس حوالے سے فوٹوگرافر برینڈن کہتے ہیں کہ منصوبے کی تکمیل کا کوئی ٹائم فریم طے نہیں کیا گیا تھا۔ان کے مطابق فنڈز اکھٹا کرنے کا مقصد سیدہ غالم فاطمہ کا مدد تھا اور اب تک کے اخراجات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ فاطمہ نے بہت احتیاط سے قلیل رقم خرچ کی ہے۔واضح رہے کہ سیدہ غلام فاطمہ 2015 میں اُس وقت منظرعام پر آئی تھیں جب ہیومنز آف نیویارک کے فوٹوگرافر نے پاکستان کا رخ کیا تھا اور یہاں بسنے والے افراد کی کہانیاں اپنے بلاگ پر سنانے کا آغاز کیا تھا۔اپنی فیس بک پوسٹ پر سیدہ غلام فاطمہ کی تصویر کے ساتھ برنڈن اسٹینٹن نے انہیں ‘بہت خاص تبدیلی کے طور پر بیان کیا تھا جو ملک کے ایک اہم سماجی مسئلے کے خاتمے میں مصروف ہیں’۔

فاطمہ کے کام سے متاثر ہو کر فوٹوگرافر نے اپنے ڈیڑھ کروڑ فالوورز کو اس کام میں اپنی مدد کرنے کی دعوت دی تھی۔

2015 میں اسٹینٹن نے اپنے فیس بک پیغام میں لکھا تھا کہ، ‘اپنی سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے فاطمہ متعدد بار فائرنگ، بجلی کے جھٹکے اور مارپیٹ برداشت کرچکی ہیں تو اب جب کہ ہم ان کی کہانی جان چکے ہیں تو ان کی مدد کرنے اور فاطمہ کی این جی او بونڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ کے لیے عطیات دیں’۔

فاطمہ کی پیش کردہ بینک دستاویزات

دوسری جانب اپنے اوپر لگنے والے الزامات کے جواب میں سیدہ غلام فاطمہ بھی بینک دستاویزات اور جائیداد کی رجسٹری کے کاغذات پیش کرچکی ہیں۔

سیدہ غلام فاطمہ کی بینک دستاویزات
سیدہ غلام فاطمہ کی بینک دستاویزات

یس اردو نیوز کو حاصل ہونے والی ان دستاویزات میں میزان بینک میں فاطمہ کے بینک اکاؤنٹ کی تفصیل شامل ہے۔

10 دسمبر 2015 کو کھلنے والے اس بینک اکاؤنٹ میں 20 مارچ 2017 تک کا بیلنس 208 ملین روپے ہے۔میزان بینک میں فاطمہ کی این جی او کے اکاؤنٹ کی اسٹیٹمنٹ کے مطابق اس میں 52 لاکھ روپے موجود ہیں۔زمین کے کاغذات پر 24 اپریل 2014 کی تاریخ درج ہے جو فاطمہ کی اپنی ذاتی ملکیت ہے جبکہ اسی زمین پر ان کے فریڈم سینٹر کے قیام کا عمل جاری ہے۔

زمین کی خریداری اور قبضے کے کاغذات
زمین کی خریداری اور قبضے کے کاغذات

ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے سیدہ غلام فاطمہ کا کہنا تھا کہ تمام فنڈز اور عطیات گذشتہ سال ان تک پہنچے جبکہ سینٹر کے قیام میں تاخیر کی وجہ مناسب زمین کی تلاش اور طاقتور افراد کی مزاحمت ہے۔فاطمہ کے مطابق وہ کچھ ایسا تیار کرنا چاہتی ہیں جو ان کے بعد بھی زندہ رہے، مگر ان کے زیرتعمیر سینٹر کے نزدیک موجود ٹرانسفارمر لوگوں کی جانب سے تباہ کیے جانے کے بعد اس مقام پر نہ پانی ہے اور نہ ہی بجلی۔فاطمہ کا مزید کہنا تھا کہ ‘منظرعام پر آنے والی تصاویر میں صرف ایک بلاک دکھایا گیا ہے اور وہ پورا منصوبہ نہیں’۔

فاطمہ کے خلاف رپورٹ پر کام کرنے والے رپورٹر حمزہ راؤ نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ‘یہ سب الزامات نہیں، میں نے کسی پر کرپشن اور دھوکہ دہی کے الزامات عائد نہیں کیے، میں نے صرف چند آسان سوالات اٹھائے ہیں کہ اس سینٹر کے منصوبے میں پیش رفت اور واضح کام نظر کیوں نہیں آتا’۔حمزہ کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس بات کہ ذمہ دار نہیں کہ لوگ اس آرٹیکل سے کیا معنی اخذ کررہے ہیں اور وہ اپنی رپورٹ کی وضاحت میں جوابی رپورٹ بھی لکھ چکے ہیں۔

فوٹوگرافر کی یہ مہم بین الاقوامی میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کا بھی اہم سبب بنی۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website