counter easy hit

ہندوستان میں ہندوتا اور صہیونیت کا خطرناک ملاپ

گذشتہ سال جولائی میں جب ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی اسرائیل کے دورہ پر یروشلم گئے تھے تو اسرائیلی وزیر اعظم نیتھن یاہو نے نریندر مودی سے اپنی محبت جتانے کے لئے، اسرائیل کے ایک پھول کا نام مودی کے نام پر رکھا تھا۔ اب جب نیتھن یاہو، ہندوستان کے دورہ پر آئے ہیں تو نریندر مودی نے دہلی کے تاریخی تین مورتی چوک کا نام ہی بدل کر اسرائیل کے دوسرے بڑے شہر حیفا کے نام پر رکھ دیا۔ تین مورتی چوک، تین مورتی بھون کے سامنے ہے۔ یہ تاریخی کوٹھی آزادی سے پہلے کمانڈر انچیف کی قیام گاہ تھی اوراس کے بعد سترہ سال تک پنڈت نہرو نے یہا ں سے وزیر اعظم کی حیثیت سے حکمرانی کی، اب یہاں ان کا میوزیم ہے۔

نریندر مودی نے ایک حد تک نیتھن یاہو کو مات دے دی ہے کیونکہ نیتھن یاہو نے تو صرف ایک پھول کا نام مودی رکھا تھا لیکن مودی نے ایک شاندار تقریب میں پورے ایک تاریخی چوک کا نام بدل کر اسرائیل کے شہر حیفا کے نام پر تین مورتی حیفا چوک رکھ دیا ہے۔ اس اقدام کے پیچھے نریندر مودی کی عیاری چھپی ہوئی ہے۔ ایک طرف اسرائیل کی خوشنودی حاصل کرنا اس کا مقصد ہے اور دوسری جانب مسلمانوں کے خلاف دل میں بھڑکتی نفرت کی بھڑاس نکالنا ہے۔

تین مورتی چوک کے نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہاں ایک یادگار پر تین فوجیوں کی مورتیاں ہیں۔ یہ فوجی امپیریل فوج میں شامل تین رجواڑوں، حیدرآباد دکن، میسور اور جودھپور کے گھڑ سوار ردستوں کے فوجی ہیں جوپہلی عالم گیر جنگ میں مشرق وسطیٰ کے محاذ پر لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے تھے۔ تینوں رجواڑوں کے یہ سوار، مشرق وسطیٰ میں سلطنت عثمانیہ کے خلاف انگریزوں کی جنگ میں شامل تھے۔ ان ہندوستانی فوجیوں نے ستمبر 1918ء میں فلسطین کے ساحلی شہر حیفا کو سلطنت عثمانیہ کی فوجوں سے آزاد کرایا تھا۔

حیفا کی لڑائی میں جودھپور سوار دستہ کے کمانڈر میجر دلپت سنگھ شیخاوت اور 44 سوارمارے گئے تھے اسی لڑائی میں میجر شیخاوت کو ملٹری کراس کا ایوارڈ ملا تھا۔

teenmurti

تین مورتی یادگار کے نیچے اردو میں عبارت کندہ ہے۔ ”امپیریل سروس کیولیر بریگیڈ کے سوار جنہوں نے جنگ عظیم میں 1913ء سے 1919ء تک جزیرہ نما فلسطین اور سوریا میں جانیں نثار کیں۔ اس بریگیڈ میں حیدر آباد دکن، میسور اور جودھپور کے سوار بھرتی تھے۔” یادگار میں جن مقامات کے نام دیے گئے ہیں ان میں نہر سویز، یروشلم، حیفا، دمشق اور حلب صاف پڑھے جا سکتے ہیں۔ شکر ہے کہ مودی سرکار کے بر سر اقتدار آنے کے بعد اردو کی اس عبارت کو مٹا کر اس پر ہندی مسلط نہیں کی گئی۔

یہ دلچسپ بات ہے کہ ہندوستان کے ان فوجیوں نے جن کے نام پر تین مورتی کو حیفا کا نام دیا گیا ہے، صرف حیفا ہی میں جنگ نہیں لڑی تھی بلکہ انہوں نے دمشق اور حلب میں بھی جنگ لڑی تھی، لیکن اہم پہلو یہ ہے کہ ان کی صرف حیفا کی لڑائی کی بناء پر تین مورتی چوک کا نام بدلا گیا ہے۔ مقصد واضح ہے کہ ہندوستان کے عوام کے دل خوش کئے جائیں کہ ان ہندوستانی فوجیوں نے سلطنت عثمانیہ کی فوجوں کو حیفا میں شکست دے کر ایسا کارنامہ انجام دیا تھا جس کی یاد تین مورتی کا نام حیفا رکھ کر امر کر دی گئی ہے۔

ہندوستان کے موجودہ حکمرانوں کو ایسا معلوم ہوتا ہے 1960ء کا وہ واقعہ یاد نہیں یا اسے یکسر بھلا دیا ہے، جب جواہر لعل نہرو، لندن میں دولت مشترکہ کے وزارئے اعظم کی کانفرنس میں شرکت کے بعد غزہ میں اسرائیل اور مصر کے درمیاں جنگ بندی سرحد پر تعینات اقوام متحدہ کی ہنگامی فوج میں شامل ہندوستانی فوجیوں سے ملنے غزہ گئے تھے، فوجیوں سے ملنے کے بعد نہرو اقوام متحدہ کے چارٹرڈ طیارہ میں بیروت کیلئے روانہ ہوئے، جیسے ہی نہرو کے طیارہ نے اڑان بھری، اسرائیل کے دو جٹ طیاروں نے اس کا تعاقب کیا اور اسے زبردستی اسرائیل میں اتارنے کی کوشش کی لیکن اقوام متحدہ کے طیارے کے ہوا باز نے بڑی مہارت سے یہ کوشش ناکام بنادی اور بحفاظت نہرو کو بیروت پہنچا دیا۔ اس وقت تو نہرو نے کچھ نہیں کہا لیکن دہلی واپسی پر انہوں نے لوک سبھا میں اس واقعہ کا انکشاف کیا اور اسرائیل کی اس کارراوئی کو بلا اشتعال اقدام قرار دیا اور اس کی مذمت کی۔ اس واقعہ کو اٹھاون سال گذر چکے ہیں،اسرائیل نے ابھی تک اس واقعہ پر ہندوستان سے معذرت نہیں کی ہے۔ اسی اسرائیل کے وزیر اعظم کا اب ہندوستان کی دھرتی پر زبردست سواگت کیا جارہا ہے۔

nehru in gaza with indian troops 1960

اسرائیل کے بارے میں جواہر لعل نہرو کی پالیسی پر کئی مصلحتیں حاوی تھیں۔ مشرق وسطیٰ کے عرب ملکوں اور خاص طور پر غیر وابستگی کے حامل ملکوں سے نظریاتی تعلق، اسرائیل پر امریکا کی گرفت اور ہندوستان کے مسلمانوں کے جذبات کا بھی احساس تھا اسی لئے انہوں نے 1950ء تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تھا اور بالاخرجب رسمی طور پر اسرائیل کو تسلیم کیا تھا اور جواز یہ پیش کیا تھا کہ اسرائیل ایک حقیقت بن چکا ہے لیکن انہوں نے ہمیشہ اسرائیل سے دوری رکھی۔ یہ صحیح ہے کہ کانگریس کی حکومت کی خارجہ پالیسی کی سمت بدلی اور 1992ء میں امریکا اور اقتصادی مسائل کے دبائو میں اسرائیل سے بھر پور سفارتی تعلقات استوار کئے اور اسی بنیاد پر ہندوستان نے 1996ء میں امریکا سے اسلحہ کے حصول اور دفاعی امور میں تعاون کے سلسلہ میں کامیابی حاصل کی۔ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ بھر پور سفارتی تعلقات کی وجہ سے امریکا،ہندوستان کے ساتھ جوہری تعاون کا سمجھوتہ کرنے پر راضی ہوا ہے۔ اسرائیل سے ہندوستان کے تجارتی تعلقات بڑی تیزی سے بڑھے ہیں اور اب اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان اسرائیلی اسلحہ کی 5ارب ڈالر سے زیادہ کی تجارت ہے، ہندوستان کو برآمد اس کے علاوہ ہے ۔ نیتھن یاہو کے دورہ کا ایک اہم مقصد دونوں ملکوں میں تجارتی تعلقات کو بھر پور طریقہ سے فروغ دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیتھن یاہو کے ساتھ 130 ممتاز بزنس مین ہندوستان آئے ہیں۔

ہندوستان کے مبصرین کی رائے ہے کہ نریندر مودی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد جس تیزی سے ہندوستان اور اسرائیل کے تعلقات میں ایک نیا موڑ آیا ہے اس کے پس پشت اقتصادی مفادات کے ساتھ نظریاتی ملاپ بھی اہم ہے اور یہ آر ایس ایس کے ہندوتا کے نظریہ اور صہیونی نظریہ کا اتحاد ہے۔ اس کا علی اعلان اظہار نریندر مودی نے گذشتہ سال جولائی میں اسرائیل کے دورہ میں کیا تھا جب انہو ں نے خاص طور پر یروشلم میں صہیونی تحریک کے بانی تھیوڈور ہرزل کی قبر پرحاضری دی تھی اور فاشسٹ نظریہ کے داعی ہرزل سے نہایت جذباتی انداز سے عقیدت کا اظہارکیا تھا۔ یہ اظہارِ عقیدت صہیونی نظریہ سے ہندوتا کے پرچارک کی قربت کو آشکار کرتا تھا۔ اور اب نیتھن یاہو کا جس والہانہ انداز سے ہندوستان میں خیر مقدم کیا جارہا ہے اس کے بعد ہندوتا اور صہیونی ملاپ پر کوئی شک باقی نہیں رہتا اور بلاشبہ نیتھن یاہو کے اس چھ روزہ دورہ میں افغانستان، پاکستان اور جنوبی ایشیاء کے بارے میں صدر ٹرمپ کی حکمت عملی کی روشنی میں ہندوستان اور اسرائیل کے رہنمائوں کے درمیان دور رس منصوبے تیار کیے جائیں گے جو پاکستان کے لئے سنگین خطرے کا باعث ثابت ہوں گے۔