counter easy hit

لاعلاج حادثے، کنٹینر آباد سے براہ راست

کسی بھی مرض کا علاج تب ہی میسر یا ممکن ہو سکتاہے جب تک کہ اس کی پیچیدگیاں معالج کی دسترس میں ہوں ، ایسی دوائیں یا وسائل دستیاب ہوں کہ جن سے مرض کو مزید بڑھنے سے روکا جائے اور بالآخر اسے ختم کر کے ہی دم لیا جائے ۔ اس سارے عمل کو علاج سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ لیکن اگر علاج کی صورت یہ چارہ سازی بھی میسر نہ ہو تو مریض سے معذرت کر لی جاتی ہے ، مرض لاعلاج قرار دیا جاتا ہے کہ جائیں ،آپ کا مرض لاعلاج ٹھہرا۔ لہٰذا آپ کا اللہ نگہبان ہے۔

گزشتہ چند روز سے ایسی ہی لاعلاج سی صورتحال راولپنڈی اسلام آباد میں پائی جارہی ہے  جس کی وجہ مذہبی جماعتوں کا جڑواں شہروں کو ملانے والی مرکزی شاہراہ پر اپنے مخصوص مطالبات کے حق میں دھرنا ہے۔گزشتہ چند روز سے جڑواں شہروں کے کچھ انتہائی مصروف حصوں میں آدھی صدی پیچھے کا زمانہ چل رہا ہے۔ نہ رابطے ہو پارہے ہیں نہ سواری میسر ہے البتہ شہر کی اندرونی گلیوں میں خوب رش لگتا ہے۔ ان سارے عوامل کے پس پشت کچھ نعرے اور تقریریں ہیں جو جڑواں شہروں کی مرکزی شاہراہ سے یکے بعد دیگرے مختلف اوقات میں ایک پر ہجوم مجمے سے سنائی دیتے ہیں۔

حکومت کی جانب سے اس ساری صورتحال سے نمٹنے کے لئے بندوق بردار پہلے ہی شہر کے حساس حصوں میں تعینات کیے گئے ہیں ، شاہرات کو  بھی کنٹینر ز سے ایک بار پھر سجایا گیا  ہے۔ہجوم کی پیش قدمی کو محدود کرنے اور ہجوم کی تعداد مزید بڑھنے سے روکنے کے لئے شہر کے مخصوص حصوں میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسرز بھی محدود کر دی گئی ہیں۔اس سب سے کچھ اور تو نہیں البتہ عام شہریوں کی زندگی خوب مفلوج ہو کر رہ گئی ۔ شہریوں کو جڑواں شہروں میں نقل و حرکت کرنے پر خوب مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سرکاری میٹرو بس سروس بھی پہلے جزوی اور اب مکمل معطل ہے۔

ماضی میں اس نوعیت کا بحران دیکھنے کو تو خیر ملا ہی تھا لیکن شہر کے مرکزی حصے شائد پہلے اس قدر متاثر نہ ہوئے تھے۔ ایسے دھرنوں اور احتجاجی سلسلوں میں حادثات ہونا تو خیر ان  دھرنوں کا خاصہ ہوا کرتا ہے ۔اس بار بھی ایسا ہو رہا ہے ۔ ہجوم کی آویزش سے اور شہر کی اس مرکزی شاہراہ کو مفلوج کر دینے سے کئی حادثات ہو چکے ہیں سنا ہے کوئی بچہ ایمبولینس میں ہی دم توڑ گیا۔ سرگودھا کے رہائشی محمد بلال کا آٹھ سالہ بچہ حسن بلال راستہ نہ ملنے کے باعث بر قت ہسپتال نہ  پہنچ سکا اور ایمبولینس میں ہی وفات پا گیا۔ دھرنے والوں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ ان کے نزدیک تو معاملہ کچھ ایسا ہے ،” اسلام کی آبیاری کے واسطے آپ بھی مریں ، ہم بھی کھڑے ہیں ،نہیں ہٹیں گے۔”

گزشتہ ماہ انتخابی اصلاحات کے بل میں حلف میں ترمیم کی گئی تھی جس پر ملک کی مذہبی جماعتوں سمیت دیگر عوامی حلقوں نے شدید احتجاج کیا تھا۔ عوام کی جانب سے بھرپور رد عمل پر اس ترمیم کو واپس لے لیا گیا تھا ، تاہم اس کے بعد بھی ملک میں ختم نبوت کے عنوان سے اجتماعات منعقد ہوتے رہے اور حکومتی اقدام کی بھرپور مزمت کیجاتی رہی۔اسی تسلسل میں تحریک لبیک یا رسول اللہ اور سنی تحریک کے کارکنان انتخابی اصلاحات کے بل میں حلف میں کی گئی ترمیم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کر نےلگے۔ اب ان کا مطالبہ یہی ہے کہ جن احباب کی جانب سے اس ترمیم کی صلاح دی گئی یا ترمیم کی گئی ان کے خلاف کارروائی کی جائے جبکہ حکومت اس معاملے کو لے کر خاموش سی نظر آتی ہے ۔
مذہبی جذبات کے پیش نظر مذہبی جماعتوں کا یہ مطالبہ جائز ہو سکتا ہے لیکن احتجاج کی یہ صورت قطعی جائز نہیں ہے ۔ نظام ِزندگی مفلوج ہونے سے جا بجا حادثات جنم لے رہے ہیں اور  عام شہریوں کی نقل و حرکت محال ہو چکی ہے۔ اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہوگا کہ ایک آٹھ سالہ ننھی زندگی اس احتجاج کی نظر ہو چکی ہے۔حکومت کی جانب سے ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لئے آج تک کوئی پالیسی وضع نہیں کی گئی۔

اپنا ایک رونا رو کر اجازت چاہوں گا کہ  موبائل کنکشن کی بندش کے سبب میں اپنے کچھ عزیزوں  سے بروقت رابطہ نہ کر سکا۔ جب پریشانی حس سے بڑھ گئی تو تلاش گمشدہ کی طرح ایک آدھ گھنٹہ  انہیں ڈھونڈنے پر ان تلک پہنچا۔ یہ شائد  کوئی زیادہ انہونی نہیں ہےلیکن بے شمار لاعلاج حادثے آئے روز اس بحرانی کیفیت میں یہاں وقوع پذیر ہو رہے ہیںجو لاعلاج ہیں۔احتجاج اور دھرنوں کی صورت میں حکومت کی جانب سے متبادل راستے تو وضع کر دئے جاتے ہیں لیکن، بروقت اور مناسب سواری میسر نہ ہونے کے باعث جو چاندی مافیا لوگوں کی ہوتی ہے اس کا کوئی  علاج نہیں  ہے۔
آخر میں ایک شعر عرض ہے،

چارہ سازوں کی چارہ سازی سے درد بدنام تو نہیں ہو گا
دوا دو مگر یہ تو بتلا دو مجھے آرام تو نہیں ہو گا
(جون ایلیا)