counter easy hit

30 نومبر بھی گزر گیا

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر

بعد از خرابیٔ بسیار نواز لیگ کے میڈیا سیل کو ہوش آہی گیا اور اُس نے الیکٹرانک میڈیا پر بھرپور ،مدلل اور مؤثر تشہیری مہم کا آغاز کردیا ۔اِس مہم میں کئی ایسے دستاویزی ثبوت پیش کیے گئے ہیں جن کی تردید اکابرینِ تحریکِ انصاف کے لیے ناممکن ہے۔ اِس تشہیری مہم سے عیاں ہو جاتاہے کہ عمران خاںصاحب کی ساری تگ ودَو کا محورو مرکز اقتدار پر قبضہ ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ نسلِ نَو کو گمراہ کرکے اُن کی طاقت سے موجودہ حکومت کا خاتمہ کردیں ۔حصولِ مقصد کے لیے وہ ”جنگ اور محبت میں سب جائزہے”کے فارمولے پر عمل پیراہیں ۔اُن کی شخصیت کے اِس رُخ کا اندازہ اُن کے دھرنوں کے دَوران کی جانے والی تقاریر سے ہوا ،جہاں وہ ایک ”ہیرو”کی بجائے اکھڑ ، ضدّی ،اناپرست اور نرگسیت کے شکار ایسے شخص کے روپ میں نظرآئے جو اِس فارمولے پر عمل پیراہے کہ ”جھوٹ اتنے تواتر سے بولو کہ سچ کا گماں ہونے لگے۔

14 اگست کے دھرنے کے شور میں جب علامہ طاہرالقادری نے بھی دھرنے کا اعلان کردیا تو حکومتی حلقوں میں ہلچل مچ گئی اور وزیرِداخلہ چودھری نثار صاحب نے بوکھلا کر پولیس ،رینجرز ،ایف سی اور فوج کے چالیس ہزار جوان اکٹھے کرلیے جن پر دھرنوں کے دَوران لَگ بھگ ایک ارب روپے صَرف ہوئے ۔جب تک عوامی تحریک کا ساتھ رہا ،دھرنوں کا کچھ نہ کچھ بھرم قائم رہا ،سچ تو یہی ہے کہ دھرنا صرف علامہ قادری اور اُن کے عقید تمندوں نے دیا ،خاں صاحب تودو گھنٹوں کے لیے میوزیکل کنسرٹ میں تشریف لاتے اور پھر اپنے بنی گالہ کے محل میں تشریف لے جاتے ۔دیگر اکابرین سرینا اور میریٹ ہوٹل میں چلے جاتے ،پرویزخٹک اپنے ساتھیوں کے ہمراہ خیبرپختونخوا ہاؤس اورپنڈی اسلام آباد سے آئی ہوئی محفلِ موسیقی کی شوقین نَسلِ نَو اپنے اپنے گھروں میں ۔خاںصاحب کے ساتھ لاہور اور دیگر شہروں سے آئے ہوئے ”سونامیے”تو دودِنوں کے بعد ہی اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔

علامہ قادری کے عقیدتمند محفلِ موسیقی کی رونق بڑھاتے رہے لیکن جونہی قادری صاحب نے دھرنا لپیٹا ،شاہراہِ دستورپر اُلّو بولنے لگے لیکن اناپرست خاںصاحب پھر بھی شام کو ڈیڑھ دوسوافراد کے دھرنے سے خطاب کرتے رہے ۔اُنہوں نے اپنے کنٹینر سے جو بھی حکم جاری کیا وہ سونامیوں نے ہوا میں اُڑادیا ۔سول نافرمانی پر کسی نے عمل کیا نہ یوٹیلٹی بِلز کی ادائیگی میں خلل آیا اور ”لندن پلان”کے مطابق نہ ہی امپائر کی انگلی کھڑی ہوسکی البتہ یہ ضرور ہوا کہ تحریکِ انصاف کے اراکینِ پارلیمنٹ میں اچھی بھلی پھوٹ پڑگئی۔

جنہوں نے استعفے لکھ کر دیئے تھے وہ بھی ہواؤں کا رُخ دیکھ کر سپیکرصاحب کا سامنا کرنے سے کترانے لگے ۔اگر اُن کی نیتوں میں فتور نہ ہوتا تو وہ مخدوم جاویدہاشمی کی طرح پارلیمنٹ میں جاکر مستعفی ہوجاتے ۔پلان اے اور بی کی ناکامی کے بعد خاںصاحب نے 30 نومبر کو پلان سی کا اعلان کردیا۔ پلان اے اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دینا اور امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کا انتظار کرناتھا ۔جب انگلی کھڑی نہ ہوسکی تو پلان بی پر عمل کیاگیا اورپارلیمنٹ ہاؤس ،وزیرِاعظم ہاؤس اور پی ٹی وی پر قبضے کی کوشش کی گئی ۔مقصد صرف تصادم کی فضاء پیدا کرکے احتجاج کرنے والوں کی لاشوں پر سیاست کرنا لیکن حکومت ”طرح”دے گئی ۔علامہ قادری تو بَددِل ہوکردھرنا سمیٹنے کی سوچنے لگے ۔وہ ایک ماہ تک خاںصاحب کو دھرنا ختم کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن خاںصاحب کے متواتر انکارپر علامہ نے دھرنا لپیٹ لیا۔

تَب نرگسیت کے شکار کپتان نے 30 نومبر کو ایک دفعہ پھر اسلام آباد میں دَس لاکھ کے جلسے کا اعلان کردیا ۔بھرپور کوشش بھی کی ،جگہ جگہ جلسے کرکے 30 نومبر کے جلسے میں شرکت کی اپیلیں بھی کیں ،کروڑوں روپے کا چندہ بھی اکٹھا کیا لیکن دَس لاکھ تو کیا اُس کا عشرِ عشیر بھی اکٹھا نہ کرسکے ۔سکیورٹی ادارے کہتے ہیں کہ پینتیس ہزار کا مجمع تھا ،اگر یہ ستّر ہزار کا بھی ہوتا تو کیا فرق پڑتا ۔اگر جلسوں کی تعداد سے ووٹ ملتے تو علامہ قادری کا امیدوار بھکر کے ضمنی انتخاب میں صرف تیرہ ہزار ووٹ نہ لیتا حالانکہ قادری صاحب کے بھکر کے جلسے میں چالیس ہزار لوگوں نے شرکت کی اور بیماری کے باوجود چار دنوں تک علامہ صاحب بھکر میں بیٹھ کر لوگوں کو قائل بھی کرتے رہے ۔نتہجہ کیا نکلا ؟۔انعام اللہ نیازی کے اڑتالیس ہزار ،نوانی کے سینتالیس ہزار اور علامہ کے محض تیرہ ہزار۔

اب عمران خاں صاحب نے اپنا پلان سی ظاہر کردیا ۔اُنہوں نے کہا کہ حکومت عدالتی کمیشن بناکر چار سے چھ ہفتوں میں دھاندلی کی تحقیقات کرائے بصورتِ دیگر تحریکِ انصاف 4 دسمبر کو لاہور ،8 کو فیصل آباد ،12 کو کراچی اور 16 دسمبر کو پورا پاکستان بند کردے گی۔عرض ہے کہ وزیرِاعظم تین ماہ پہلے سپریم کورٹ کو عدالتی کمیشن کے لیے خط لکھ چکے ہیں۔ اب یہ سپریم کورٹ کا کام ہے کہ وہ کمیشن تشکیل دے لیکن سپریم کورٹ شاید اِس لیے کمیشن تشکیل نہیں دے رہی کہ آرٹیکل 225 کے تحت صرف الیکشن ٹریبونل ہی ایسی تحقیقات کا مجاز ہے۔ سپریم کورٹ 14 مختلف درخواستوں پر باربار یہ فیصلہ بھی دے چکی ہے ۔چار سے چھ ہفتوں میں قومی اسمبلی کے 272 حلقوں میں دھاندلی کی تحقیقات ناممکن ہے اور جن چار حلقوں کا خاںصاحب باربار ذکر کرتے ہیں وہ پہلے ہی الیکشن ٹریبونل میں کھُل چکے ہیں اور اُن پر تحقیقات جاری ہیں۔

دراصل خاںصاحب کا مقصد بھی وہی ہے جو اُن کے پہلو میں کھڑے ”خودکُش بمبار”شیخ رشید کاہے ۔شیخ رشید نے 30 نومبر کو بھی مرنے مارنے اور جلاؤ گھراؤ کی باتیں کیں ۔خاںصاحب ملک میں انارکی اور تصادم کی فضاپیدا کرکے اپنی تحریک کو انسانی خون سے کامیاب بنانے کی تگ ودَو کر رہے ہیںلیکن وہ اِس پلان سی میں بھی بری طرح ناکام ہونگے کیونکہ اُن کے سونامیے مولاناقادری کے عقیدتمندوں جیسے نہیں جو اُن کے ایک اشارے پر مرنے مارنے پر تیار ہوجائیں۔ یہ نسلِ نَو کے پڑھے لکھے نوجوان ہیں جنہیں جذباتی نعروں سے گمراہ تو ضرور کیاگیا ہے لیکن وہ تصادم کے لیے ہرگز تیار نہیں ہونگے اور خاںصاحب جو 16 دسمبر کو سانحہ مشرقی پاکستان کی تاریخ دہرانے جارہے ہیں ،وہ اِس میں بھی انشاء اللہ بُری طرح ناکام ہونگے۔

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر