counter easy hit

انگریز اور میسور

حیدر علی اور ٹیپوسلطان کی خواہش تھی کہ ہندوستان کے راجا اور نواب مشترکہ فوج بنا کر انگریزوں کیخلاف جنگ میں حصہ لیں

انگریزوں، مرہٹوں اور نظام حیدرآباد کی متحدہ فوج کو حیدر علی کی فوج نے شرم ناک شکست سے دوچار کیا تھا۔ اس وقت انگریزوں نے صلح کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ لیکن صلح کی شرائط کی شاطر انگریزوں نے ذرّہ بھر پاس داری نہیں کی اور وقت پڑنے پر حیدر علی کا ساتھ نہ دیا۔ حیدر علی اور ٹیپو انگریزوں کو اصل دشمن سمجھتے تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ ہندوستان کے تمام راجا اور نواب آپس میں مل جائیں اور متحدہ فوج بنا کر انگریزوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔
انگریز حیدر علی اور ٹیپو کے اِسی نظریے سے سخت خوف زدہ تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ہندوستان میں ان کی حکومت کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی دونوں یعنی ’’ سلطنتِ خدا داد میسور‘‘ کی فوج ہے۔ انگریز پورے ملک میں اپنی حکمرانی کا خواب دیکھ رہے تھے۔ حیدر علی اور ٹیپو انگریزوں کے اِس ناپاک ارادے کی راہ میں ایک ناقابلِ تسخیر چٹان بن چکے تھے۔ انگریزوں کے شاطر ذِہن نے یہ سمجھ لیا کہ میسور کی فوج کو طاقت کے بل بوتے پر شکست دینا بہت مشکل کام ہے۔ اِس کے لیے انھوں نے نت نئی سازشوں کا جال بُننا شروع کیا۔ اور اِس سازش میں انھوں نے مرہٹوں اور نظام حیدرآباد کو دوبارہ اپنے ساتھ ملا لیا۔
انگریزوں سے جنگ:جب حیدر علی کو اِس نئی سازش کا علم ہوا تو اس نے اپنی جنگی فہم و فراست اور تدبر کو کام میں لاتے ہوئے اپنی فوج کی خوب اچھی طرح تربیت کی۔ انہیں انگریزی فوج کے جنگی داؤ پیچ سے آگاہ کیا۔ اِسی دوران یورپ میں انگریزوں اور فرانسیسیوں کے بیچ جنگ چل رہی تھی۔ ہندوستان میں انگریزوں کی طرح فرانسیسیوں کی بھی تجارتی منڈیاں تھیں۔ لیکن وہ انگریزوں کی بہ نسبت کمزور تھے۔ انگریز فرانسیسیوں کو ہندوستان سے نکال باہر کرنا چاہتے تھے۔ میسور کی سلطنت میں ایک بندرگاہ تھی۔ جس کا نام   ماہی   تھا۔ فرانسیسیوں سے حیدر علی کے تعلقات بہتر تھے۔ اس نے یہ بندرگاہ فرانسیسیوں کو دے رکھی تھی۔ انگریز فرانسیسیوں سے یہ بندرگاہ چھیننا چاہتے تھے۔ اِس کے لیے انہوں نے 1780ء میں حیدر علی کے علاقے سے اپنی فوج گزارنے کی کوشش کی۔ حیدر علی کو اس بات پر بڑا طیش آ گیا اور اس نے انگریزوں کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔
حیدر علی نے بڑی جرأت اور بہادری سے انگریزی فوج پر اِس تیزی سے یلغار کی کہ انگریز بوکھلا اٹھے۔ انہوں نے گھبراہٹ کے عالم میں حیدر علی کے پاس اپنا قاصد روانہ کیا تاکہ صلح کے بارے میں کوئی بات چیت کی جاسکے۔ لیکن حیدر علی انگریزوں کی مکاری اور چال بازی سمجھ چکا تھا۔ اس نے صلح کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ ایک طرف بہادر ٹیپو فوج لے کر انگریزوں کی صفیں توڑتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا اور دوسری طرف حیدر علی دشمن کے چھکّے چھڑا رہا تھا۔ انگریزی فوج کے سپہ سالار جنرل ہیکٹر نے جب اپنی فوج کی بے بسی دیکھی تو اس نے چھاونی میں مدد کی درخواست کی۔ انگریزوں نے جنرل ہیکٹر کی مدد کے لیے کرنل بیلی کی قیادت میں ایک فوج روانہ کی۔ ٹیپو اور کرنل بیلی: ٹیپو اپنے باپ حیدر علی کے ساتھ تھے۔ جب حیدر علی کو اِس بات کی خبر ملی کہ جنرل ہیکٹر کی مدد کے لیے کرنل بیلی کو مدراس سے بھیجا جا رہا ہے تو انہوں نے ٹیپو کو فوج دے کر فوراً روانہ کیا کہ وہ راستے میں ہی کرنل بیلی کی پیش قدمی کو روک دے تاکہ جنرل ہیکٹر کو فوجی مدد نہ مل سکے۔
بہادر ٹیپو نے باپ کا حکم ملتے ہی بڑی تیز رفتاری سے فوج کو آگے بڑھایا اور اس نے درمیان ہی میں کرنل بیلی کا راستہ روک لیا۔ کرنل بیلی کی فوج کے دو حصے ہو گئے۔ ایک تو ٹیپو کے گھیرے میں آ گیا جب کہ دوسرا اپنے دفاع کے لیے جنگ کرنے لگا۔ ٹیپو کی تربیت یافتہ منظم فوج نے انگریزوں کی ان سے زیادہ تربیت یافتہ اور منظم فوج کو اِس مقام پر کراری شکست سے دوچار کر کے رکھ دیا۔ کرنل بیلی نے جب اِس نوجوان سپہ سالار کی مجاہدانہ قیادت کو دیکھا تو وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ اِس جنگ میں ٹیپو کی فوج نے انگریزی فوج کے پچاس افسراور ڈیڑھ سو سپاہیوں کو گرفتار کر لیا۔
اِدھر جنرل ہیکٹر کے لیے کرنل بیلی کی امداد بہت ضروری تھی۔ لیکن ٹیپو کی بہادری اور حیدر علی کی دوراندیشی نے کرنل بیلی کو واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ جس کی وجہ سے جنرل ہیکٹر بھی حیدر علی سے مقابلے میں شکست خوردہ ہو کر ارکاٹ کی طرف نکل گیا۔ حیدر علی بھی اس کا پیچھا کرتے ہوئے ارکاٹ پہنچ گیا۔ جہاں اس نے ارکاٹ کا محاصرہ کر لیا۔ اور ٹیپو کو مختصر فوج دے کر بھاگنے والی انگریزی فوج پر چھاپہ مارکر مسلسل پریشان کرتے رہنے کی ہدایت دے کر روانہ کیا تاکہ مفرور انگریز فوجی مدراس نہ پہنچ سکیں۔ فتح علی ٹیپو اپنے باپ حیدر علی کے احکام پر عمل کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔ ہارے ہوئے انگریز فوجی چھپ کر مدراس کی طرف جا رہے تھے۔ حیدر علی یہ چاہتے تھے کہ ان فوجیوں کو مدراس پہنچنے سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے تاکہ ان کی طاقت کمزور ہو جائے۔ ٹیپو نے انگریزی فوج کے بھاگنے والے دستوں کا پیچھا کیا اور جنگل میں اِدھر ادھر بھاگتے ہوئے انگریزی فوجیوں کے کئی دستوں پر کام یاب چھاپے مارے۔