counter easy hit

کارکنان تحریک پاکستان کی پذیرائی

خوش بخت ہیں وہ ہستیاں جنہیں حصولِ پاکستان کی جدوجہد میں حصہ لینے کا شرف حاصل ہوا۔ ان کی پذیرائی اور اکرام ہم پر واجب ہے۔ یہ محنت نہ کرتے‘ قربانیاں نہ دیتے تو آج ہم ایک آزاد ملک کے شہری نہ ہوتے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے یہ سپاہی درحقیقت ہمارے محسن ہیں۔ ان کی مشقتوں اور ایثار کا صلہ ہم کبھی نہیں دے سکتے۔ ہاں! اتنا ضرور کرسکتے ہیں کہ خود کو پاکستان کے بے لوث خدمتگار ثابت کر دکھائیں۔ اس کی مٹی کی مہک کو دنیا کی ہر خوشبو سے برتر جانیں۔ اس کے باسیوں کے اوصاف اجاگر کریں‘ ان کی کوتاہیوں کی پردہ پوشی کریں اور دل آزاری کئے بغیر اصلاح کی کوشش کریں کیونکہ ہم سب ایک قوم ہیں۔ ایک دوسرے کی عزت بڑھانا ہمارا فرضِ اوّلین ہونا چاہیے۔ خاص طور پر جنہوں نے ہمارے کل کی خاطر اپنا آج قربان کردیا تھا‘ ان کی تو اولادیں بھی ہمارے لئے واجب الاحترام ہیں۔ انہی بزرگ ہستیوں اور ان کے ورثاء کے اعتراف خدمت کے لئے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ نے گزشتہ روز ایک خوبصورت اور باوقار تقریب شاہراہِ قائداعظمؒ لاہور پر واقع اس عمارت میں سجائی جسے دنیا ایوانِ کارکنان تحریک پاکستان کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ یہ عطائے گولڈ میڈل کی 27ویں تقریب تھی جس کے مہمان خاص صدر ذی وقار ڈاکٹر عارف علوی تھے۔ تقریب میں پاکستان بھر سے کارکنان تحریک پاکستان اور اُن کے ورثاء نے شرکت کی۔ صدر مملکت کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے ہے جس نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ صدر صاحب اس اعزاز پر بڑا فخر محسوس کرتے ہیں۔ صدر مملکت کی آمد کے فوراً بعد تمام حاضرین نے احتراماً کھڑے ہوکر قومی ترانہ سنا۔ قاری محمد رفیق نقشبندی نے قرآن حکیم کی سورۃ الرحمن کی انتہائی پیارے لہجے میں تلاوت کی جبکہ عالمی شہرت یافتہ نعت خواں حافظ قاری مرغوب احمد ہمدانی نے معروف دانشور‘ کالم نویس اور شاعر نظریۂ پاکستان محترم اثر چوہان کا نعتیہ کلام اتنے دل سوز لہجے میں پیش کیا کہ آخر میں ان کی اپنی آواز بھی رندھ گئی۔ سٹیج پر صدر مملکت کے ساتھ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے چیئرمین چیف جسٹس (ر) میاں محبوب احمد‘ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمینز پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد اور جسٹس (ر) خلیل الرحمن خان‘ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے وائس چیئرمین میاں فاروق الطاف‘ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی سرپرست بیگم مجیدہ وائیں‘ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے ٹرسٹیز شوکت ترین‘ افتخار علی ملک اور سینیٹر ولید اقبال جلوہ افروز تھے۔ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے تقریب کی نظامت کے فرائض سنبھالے اور صدر ذی وقار کی خدمت میں دونوں اداروں کا تعارف اور کارکردگی کا سرسری جائزہ پیش کیا۔ اُنہوں نے بطور خاص بتایا کہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین جو بذات خود سابق صدر مملکت ہیں‘ خواہش کے باوجود علالت کے باعث اس تقریب میں تشریف نہ لاسکے البتہ اُنہوں نے آپ کی خدمت میں سلام بھیجا ہے اور تشریف آوری پراظہار تشکر کیا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ آج کُل 29افراد کو گولڈ میڈل دیے جارہے ہیں۔ سابق مشرقی پاکستان اور متحدہ ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے گولڈ میڈل ان کے علاوہ ہیں۔ باعث مسرت امر یہ ہے کہ تحریک پاکستان کے چار کارکن بذات خود جبکہ دیگر کے ورثاء یہ گولڈ میڈل وصول کریں گے۔شاہد رشید نے بڑے فخر سے کہا کہ یہ دونوں ادارے کارکنان تحریک پاکستان کی براہ راست نگرانی میں قوم سازی کا مقدس فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس (ر) میاں محبوب احمد نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے صدر مملکت کا خیرمقدم کیا اور اس تقریب کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ میڈل دینے کی کوئی عام سی تقریب نہیں ہے بلکہ یہ گولڈ میڈل ان افراد کو دیے جارہے ہیں جنہوں نے قیامِ پاکستان کی کٹھن جدوجہد میں حصہ لے کر ہمارے لئے ایک آزاد ملک حاصل کیا تھا۔

سینیٹر ولید اقبال نے اظہار سپاس کرتے ہوئے تقریب پر طاری شدید سنجیدگی پر کہا کہ بے شک! جناب ڈاکٹر عارف علوی ہمارے ملک کے صدر ہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آپ خود پر سکوت طاری کرلیں جیسا کہ کلاس میں ٹیچر کے آنے پر طلبہ کرلیتے ہیں۔ یہ بڑے خوش مزاج انسان ہیں۔ یہ تقریب تو تحریک پاکستان کے جوش و جذبے سے بھرپور ہونی چاہیے اور صدر مملکت کا استقبال اور تالیاں بھی اُن کے شایانِ شان ہونی چاہئیں جس پر ہال دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا اور تقریب پر شگفتگی کا رنگ چڑھ گیا۔ولید اقبال نے اپنے اظہارِ سپاس کا اختتام کلامِ اقبالؒ میں شامل ’’ٹیپو سلطان کی وصیت‘‘ سے کیا۔ اس کے بعد صدر مملکت نے کارکنانِ تحریک پاکستان کو گولڈ میڈل پیش کئے جبکہ چیف جسٹس (ر)میاں محبوب احمد نے صدر مملکت کو تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کی یادگاری شیلڈ‘ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد نے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی مطبوعات کا سیٹ‘ میاں فاروق الطاف نے ٹیپو سلطان کا پورٹریٹ اور افتخار علی ملک نے اپنے والد مرحوم محمد شفیع ملک کی خود نوشت ’’یادِ ایام‘‘ پیش کیں۔

صدر پاکستان نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں نے ایک ایسے گھرانے میں پرورش پائی جہاں ہر وقت تحریک پاکستان کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ میرے والد یو پی مسلم لیگ کے انتہائی متحرک صدر تھے۔ تحریک پاکستان کے چوٹی کے رہنمائوں سے اُن کی دوستی تھی۔ میرے پورے خاندان نے جدوجہد آزادی میں سرگرم کردار ادا کیاتھا‘لہٰذا اس تقریب سعید میں مدعو کرنے کو میں اپنے لئے ایک اعزاز تصور کرتا ہوں۔صدر مملکت نے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی سرگرمیوں کو سراہتے ہوئے بھرپور سرپرستی کا یقین دلایا۔ اُنہوں نے ہال کے داخلی دروازے کی اندرونی جانب آویزاں مشاہیر تحریک پاکستان کی تصاویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ قومیں انہی جیسے ہیروز کی جدوجہد اور قربانیوں سے آزادی حاصل کرتی اور پروان چڑھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت معیشت کی بحالی ہے جو انشاء اللہ چند ماہ بعد خوش حالی کی پیامبر ثابت ہوگی۔پاکستان کی خاطر لاکھوں جانیں تو قربان کرنا پڑیں مگر اس سے ایک ایسی مملکت معرض وجود میں آگئی جس کے باشندوں میں آگے بڑھنے اور اقوام عالم میں قابل رشک مقام حاصل کرنے کے لئے درکار توانائی اور عزم بدرجۂ اتم موجود ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی بے مثال قوتِ ارادی نے حصولِ پاکستان کی جنگ میں فتح حاصل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا اور ان کے پیروکار بھی اسی قوتِ ارادی کی بدولت دہشت گردی‘ انتہا پسندی اور لسانیت کے عفریتوں کو شکست دینے میں کامیاب و کامران ہوئے ہیں۔ صدر مملکت نے کہا کہ تحریک پاکستان سے متعلقہ بہت سا تحریری و تصویری مواد موجود ہے۔ میں نے کئی لوگوں سے کہا کہ وہ قیامِ پاکستان سے متعلق اپنی یادداشتیں قلم بند کرلیں مگر آج کل تقریر کرنا آسان اور لکھنا مشکل معلوم دیتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ ایسی یادداشتوں کو  زبانی آرکائیو کی صورت ریکارڈ کرلیں تاکہ ہماری آئندہ نسلیں جان سکیں کہ ان کے بزرگوں نے کتنی مشکلات سہنے کے بعد یہ مملکت خداداد حاصل کی تھی۔ صدر مملکت کے خطاب کے بعد چیف جسٹس (ر) میاں محبوب احمد نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کے والد گرامی کی تحریک پاکستان میں خدمات کے اعتراف میں انہیں گولڈ میڈل پہنایا۔ تقریب کے اختتام پر ملک بھر سے آئے ہوئے معزز مہمانوں کی تواضع کے لئے مادرِ ملت پارک میں چائے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔