counter easy hit

پینتیس 35 برس پہلے اسٹیج پر چڑھا تو تھا مگر اُتر نہیں سکا ۔۔۔!!! بسوں میں ٹافیاں بیچنے والا کس طرح پاکستان کا ایک لیجنڈ اسٹار بن گیا؟ پڑھیئے امان للہ خان کی زندگی پر ایک خصوصی رپورٹ

لاہور( خصوصی وپورٹ )ہزاروں چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے والے معروف کامیڈین امان اللہ وفات پا چکا ہے، وہ ایک طویل عرصے سے گردوں اور پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا تھا اور لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں زیرِ علاج تھا۔ لیکن امان اللہ اس مقام تک کیسے پہنچا؟ مشہرو براڈ کاسٹر اور پرڈیوسر عارف وقار نے سب کچھ بتا دیا۔ ا عارف واقر بتاتے ہیں کہ سنہ 1970 میں یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد میں ریڈیو پاکستان میں بطور پروڈیوسر ملازم ہو گیا تھا اور میرے ذمے بچوں، عورتوں اور نوجوانوں کے پروگرام تھے۔ایک روز میں نوجوانوں کے ہفتہ وار پروگرام کی تیاری کر رہا تھا کہ گورنمنٹ کالج لاہور کا ایک طالبعلم جو میرے کچھ پروگراموں میں شرکت کر چکا تھا، ایک دبلے پتلے اور مسکین سے لڑکے کو لے کر میرے کمرے میں آیا۔اور کہنے لگا کہ یہ لڑکا بسوں میں ٹافیاں بیچتا ہے لیکن جس انداز سے بیچتا وہ بالکل نرالا ہے، ذرا دیکھیے تو! پھر اس لڑکے نے ٹافیاں بیچنے کا مظاہرہ کیا۔ جسے دیکھ کر کمرے میں موجود سبھی لوگ لوٹ پوٹ ہو گئے۔اس ہمت افزائی سے لڑکے میں اعتماد کی ایک لہر دوڑ گئی۔ پھر اس نے بھیک مانگنے والوں کے مختلف اندازِ گدائی پیش کیے اور یہ بھی دکھایا کہ امیر لوگ کس طرح بھیک دیتے ہیں اور غریب لوگوں کا اندازِ سخاوت کیسا ہوتا ہے۔انھوں نے پتنگ اڑانے والوں کا بھی نقشہ کھینچا تھا کہ مختلف لوگ کس طرح پتنگ اڑاتے ہیں اور اس میں سب سے مزیدار تھا کہ فوجی کس طرح پتنگ اڑاتے ہیں۔ یعنی فوجی اپنی پتنگ کے نزدیک کسی کو نہیں آنے دیتا اور اگر کوئی پتنگ قریب آجائے تو اس کو وہ کیسے ڈانٹتا ہے۔خیر ہم نے اس لڑکے کو نوجوانوں کے پروگرام میں شامل کر لیا اور سٹوڈیو پہنچ کر اس نے مائیکرو فون کے سامنے جو کمالات دکھائے وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی تھے کہ یہ لڑکا سارا دن بسوں میں گھوم پھر کر ٹافیاں نہیں بیچتا بلکہ رنگ رنگ کے لوگوں کو بڑے غور سے دیکھتا ہے۔ ان کی باتوں کو توجہ سے سنتا ہے اور گھر جا کر ان کے اندازِ گفتگو کی مشق کرتا ہے۔امان اللہ کے تجربات اور مشاہدات کی گٹھڑی میں اتنا مال بھرا ہوا تھا کہ ہمارے ایک پروگرام میں نہیں سما سکتا تھا۔ چنانچہ ہم نے کئی بار اسے نوجوانوں کے پروگرام میں مدعو کر کے اپنے سامعین کو محظوظ ہونے کا موقع فراہم کیا۔امان اللہ نامی اس لڑکے کا فن اگلے تین برس میں ریڈیو کی لہروں سے ہوتا ہوا الحمرا کے سٹیج تک پہنچ چکا تھا اور اس نے اپنے ساتھی اداکار البیلا کے ساتھ مل کر مزاحیہ اداکاروں کی ایک مضبوط جوڑی تیار کر لی تھی۔اس دوران میں بھی ریڈیو سے ٹیلی ویژن پر منتقل ہو چکا تھا اور پی ٹی وی لاہور سے ڈرامے کا پروڈیوسر بن چکا تھا۔میں نے محسوس کیا کہ ٹیلی ویژن میں سٹیج اداکاروں کے خلاف ایک گہرا تعصب موجود ہے۔ ٹی وی کے پروڈیوسرز میں یہ شکایت عام تھی کہ سٹیج کے لوگ سکرپٹ کی لائنیں یاد نہیں کرتے اور کامیڈی کے مناظر میں اپنی فی البدیہہ جملے بازی شروع کر دیتے ہیں۔میں نے ایک روز امان اللہ سے ذکر کیا کہ میں تمھیں ٹی وی ڈرامے میں لینا چاہتا ہوں لیکن تمھیں سکرپٹ یاد کرنا پڑے گا۔ امان اللہ مان گئے لیکن ایک شرط پیش کر دی کہ میرے ساتھ البیلا کو بھی کاسٹ کیجیے۔میں نے دونوں کو کاسٹ کر لیا اور انھی دونوں کو ذہن میں رکھ کر ایک مزاحیہ پنجابی سکرپٹ لکھا جس کا عنوان تھا
’اک سی بادشاہ۔‘یہ دراصل کاسٹیوم فلموں کی پیروڈی تھی۔ جب کھیل ریکارڈ ہوا تو حسبِ وعدہ امان اللہ اور البیلا نے ساری لائنیں یاد کر رکھی تھیں لیکن کہیں کہیں انھوں نے اپنے اضافے بھی کیے اور ان کی باہمی جملے بازی بھی ہوئی جو کہ سٹیج کی عادت کا نتیجہ تھی۔لیکن ان کے تمام جملے اتنے بے ساختہ تھے کہ کھیل میں رخنہ پڑنے کے بجائے اسے چار چاند لگ گئے۔سٹیج پر تو امان اللہ کا طوطی بول ہی رہا تھا، اب ٹیلی ویژن کا راستہ بھی ہموار ہو گیا اور اس کے بعد امان اللہ نے واقعی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔سنہ 1980 میں امریکہ منتقل ہونے سے پہلے الواداعی ملاقات کے لیے میں امان اللہ کے پاس گیا تو وہ سٹیج پر ریہرسل میں مصروف تھے۔ وقفے کے دوران سٹیج سے نیچے آکر وہ تھکی ہوئی آواز میں بولے ’سات برس پہلے اس سٹیج پر چڑھا تھا، آج تک نہیں اتر سکا۔‘ایک کھیل ختم ہوتا ہے تو دوسرے کی ریہرسل شروع ہو جاتی ہے۔ دوسرا ختم ہوتا ہے تو تیسرے کی تیاری شروع ہو جاتی ہے۔‘امان اللہ کے یہ سات برس پھر 14 برس تک پھیل گئے۔ پھر 21 برس، پھر 28 برس اور پھر 35 برس ہو گئے۔ امان اللہ سٹیج سے نیچے نہیں آ سکے۔تاوقت کہ ان کے جسم نے بغاوت کر دی اور مزید بھاگ دوڑ اور اچھل کود سے انکار کر دیا۔امان اللہ سٹیج کی مشقت بھری مصروفیات چھوڑ کر گوشہِ نشین ہو گئے لیکن اس سے پہلے کہ لوگ انھیں بھول جاتے، آفتاب اقبال کے ٹی وی شو نے انھیں پھر سے ناظرین کے سامنے لاکھڑا کیا۔زندگی کے اس آخری شو میں انھیں اجازت تھی کہ جب چاہے آ جائیں اور جب چاہیں چلے جائیں اور وہ اسی طرح اپنی مرضی سے اس شو میں آتے جاتے رہے۔لیکن پھر ایک دن ایسا آیا جب ان کی مرضی نہیں چلی۔ وہ شو کے بعد گھر تو چلے گئے لیکن اپنی مرضی سے اگلے روز شو میں واپس نہیں آ سکے۔ اب وہ وہاں پہنچ چکے تھے جہاں زندگی کا کھیل تماشا ختم ہونے کے بعد ہم سب کو جانا ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website