counter easy hit

امریکی بلیک میلنگ

سرمایہ دارانہ نظام کے سمندر میں دنیا کا سب سے بڑا مگرمچھ صدیوں سے دندناتا پھر رہا ہے جس کو کوئی روکنے والا نہیں اگر اس مگرمچھ کی مرضی کے خلاف کوئی ملک آواز اٹھاتا ہے تو یہ مگرمچھ اپنا بلیک ہول جیسا منہ کھولے اس کے گرد ایسا حصار باندھتا ہے کہ باغی ملک کا سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے کمزور ملکوں پر اپنی داداگیری چلانے کے لیے اس مگرمچھ نے ایران کے خلاف اپنی سامراجی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پر مزید  پابندی لگا دی ہے کہ وہ اپنا تیل کسی کو نہیں بیچ سکتا۔

کسی بھی ملک کے مادی وسائل پر اس ملک کا حق ہوتا ہے کہ وہ جس سے چاہے تجارت کرے جس کو چاہے اپنا مال بیچے ساری مغربی دنیا کو ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنی پیداوار جس ملک کو چاہے فروخت کرے لیکن دنیا بھر میں ملکوں کی خودمختاری اور خودمختاری کا عالمی محافظ جب اپنی مرضی چھوٹے ملکوں پر مسلط کرنے پر آتا ہے تو عدل و انصاف قاعدے قوانین اور بین الاقوامی اخلاقیات کو جوتوں تلے روندنے میں ذرا سی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ امریکا ایک مستند سامراجی ملک ہے اس سونے پر سہاگہ یہ کہ اسے ٹرمپ جیسا صدر ملا ہے جو بغیر کسی معقول وجہ کے کسی بھی آزاد ملک پر جو چاہے جتنی چاہے پابندیاں لگا دیتا ہے اور اس کے مغربی تابع دار ان پابندیوں کی آنکھ بند کرکے حمایت کرتے ہیں۔

اس خطے میں ایران ہی ایک واحد ملک ہے جو آنکھ بند کرکے اس بین الاقوامی مگرمچھ کے آگے سر تسلیم خم کرنے سے انکاری رہتا ہے۔ ویسے تو ایران اپنے اس جرم کی سزا مدت سے بھگت رہا ہے لیکن امریکی انتظامیہ کی طرف سے ایران سے تیل برآمد کرنے والے ممالک کو تیل پر جو استثنیٰ حاصل ہے امریکی جابر صدر نے اس استثنیٰ کو ختم کرکے ایرانی برآمدات پر باالواسطہ کھلی اور عیارانہ پابندی لگا دی ہے۔ اس نئی شرارت کے بعد ایران مخالف امریکی پابندیوں کے منفی اثرات کے پیش نظر جن میں حالیہ فیصلے سے اور اضافہ ہوجائے گا۔ ایرانی محکمہ خارجہ نے متعلقہ تنظیموں اور اپنے غیر ملکی شراکت داروں بشمول یورپی، علاقائی اور بین الاقوامی ممالک کے ساتھ رابطہ کیا ہے اور اس حوالے سے جلد فیصلے کیے جائیں گے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پیر کو ایک پریس کانفرنس کے دوران ایران کے خلاف دشمنانہ پالیسی کے تسلسل میں نئی پابندیوں کے حوالے سے ایران سے تیل درآمد کرنے والے ملکوں کو دی گئی چھوٹ کی عدم تجدید کا اعلان کیا تھا۔ چین نے ایران کے خلاف مزید اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے امریکی ارادے کی مخالفت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ امریکا کی جانب سے ایران پر یکطرفہ پابندیاں مشرق وسطیٰ اور عالمی انرجی مارکیٹ میں حالات کے مزید بگاڑ کا باعث بنیں گی۔ سعودی عرب نے کہا ہے کہ ایران پر مزید دباؤ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ٹرمپ کی یہ ایک کھلی بلیک میلنگ ہے۔

بین الاقوامی تنازعات کو حل کرنے کے لیے دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کے اکابرین نے اقوام متحدہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا لیکن افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ بڑی طاقتوں نے اس ادارے کو کوٹ پر لگائے جانے والے رومال کی حیثیت دے کر بے وقعت اور ناکارہ بنادیا۔ ایران کا مسئلہ ایک بین الاقوامی حیثیت کا حامل مسئلہ ہے اور ایران کے مسئلے کو اس ادارے میں لے جایا جانا تھا تاکہ یہ ادارہ مزید ایکسپوز ہو لیکن بین الاقوامی دادا دنیا کے ہر مسئلے کو اپنی مرضی کے مطابق حل کرنا چاہتا ہے اس روایت کی وجہ سے اقوام متحدہ بندر کے ہاتھ ڈگڈگی بنی ہوئی ہے۔

ایران کا تعلق مسلم ملکوں سے ہے دنیا کے مذہبی اکابرین مسلم ملکوں میں اتحاد اور یکجہتی چاہتے ہیں۔ سعودی عرب کا تعلق نہ صرف مسلم ملکوں سے ہے بلکہ اس ملک کو عالم اسلام کے مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ کیا یہ بات تعجب خیز نہیں ہے کہ سعودی عرب کا موقف ہے کہ ایران پر بین الاقوامی دباؤ اور زیادہ بڑھانا چاہیے۔ اسے ہم مسلم امہ کی بدقسمتی کہیں یا خودغرضی کہ بیشتر عالمی مسائل کے حوالے سے مسلم ممالک نہ صرف بٹے ہوئے ہیں بلکہ متحارب بھی ہیں۔

کشمیر اور فلسطین کے 71 سالہ پرانے مسئلوں کے حل نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلم ممالک ان مسئلوں کی اہمیت کے حوالے سے ان پر اتنی توجہ نہیں دیتے بلکہ ان مسائل کے حوالے سے بعض مسلم ملکوں کا موقف اس قدر مخالفانہ ہے کہ انھیں مسلم ملکوں میں شمار کرنا بھی مشکل نظر آتا ہے۔ ایران اس خطے کا واحد مسلم ملک ہے جو اپنے قیام کے بعد سے مسلسل اور مستقل مزاجی کے ساتھ سامراجی ملکوں خصوصاً امریکا کی عوام دشمن پالیسیوں کا سخت مخالف ہے ایران کی اس سرکشی کی وجہ امریکا ایران کا دشمن بنا ہوا ہے۔ حالیہ تیل کی برآمدگی پر پابندی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ اس خطے کے مسلم ممالک کی اکثریت امریکا کی غلامی کی حد تک تابع دار ہے کیونکہ ان ملکوں میں شخصی اور خاندانی حکمرانیاں ہیں جن کے عوام سخت مخالف ہیں اور جمہوری نقطہ نظر سے بھی آج کے دور میں شخصی اور خاندانی حکمرانیاں قابل مذمت سمجھی جاتی ہیں لیکن دنیا میں جمہوریت کا سب سے بڑا علم بردار امریکا نہ صرف ان شخصی اور خاندانی حکمرانیوں کا حامی ہی نہیں بلکہ محافظ بھی ہے ایسی صورت میں ایران امریکی دباؤ کا شکار رہتا ہے تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔