counter easy hit

کیا فوج میں ہونے والا تیز ترین انصاف باقی اداروں کیلئے مثال ثابت ہوگا؟

Will the fastest justice in the army be an example for the rest of the institutions?اسلام آباد: سینئر صحافی عامر احمد خان کا کہنا ہے کہ فوج میں ہونے والے احتساب کو دوسرے اداروں کیلئے مثال قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ یہ بند کمروں میں ہونے والا احتساب ہے جس میں انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں بات چیت کرتے ہوئے سینئر صحافی عامر احمد خان نے کہا کہ پاک فوج میں ہونے والے انصاف کو باقی جوڈیشری یا اداروں کیلئے مثال قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جوڈیشل پراسیس اگر بند کمروں میں ہو تو اس پر کسی جرنیل کا یہ کہہ دینا کہ انصاف کے تقاضے پورے ہوئے ہیں، یہ بات مانی نہیں جاسکتی۔ انصاف ہونا ہی ضروری نہیں ہے بلکہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ ’ ایک ایسی کارروائی جو بند کمرے میں ہوئی ہے وہ باقی کے ریاستی اداروں کیلئے اس لیے مثال نہیں بن سکتی کیونکہ اس کے بارے میں کسی کو پتا نہیں ہے‘۔ سینئر صحافی نے کہا کہ جہاں بھی دشمن، قومی سلامتی اور راز کے الفاظ آتے ہیں تو یہ باتیں خود بخود ہی مبہم ہوجاتی ہیں۔ اگر کوئی ایسا کام ہوا ہے جو پاکستان کے مفاد کے خلاف تھا تو انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے تھا کیونکہ انصاف کا سب سے بڑا تقاضہ ’ انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے‘ جب تک واضح نہیں ہوگا تب تک اس کو دوسرے اداروں کیلئے مثال نہیں بنایا جاسکتا۔

خیال رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جمعرات کے روز جاسوسی اور اہم ملکی راز غیر ملکی ایجنسیوں کو دینے کے الزام میں تین افراد کو سزاﺅں کی توثیق کی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال کو 14سال قید بامشقت ، بریگیڈیئر (ر) راجہ رضوان اور ڈاکٹر وسیم اکرم کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔