counter easy hit

یہ عورت کتیا بن کر زندگی گزارنے پر کیوں مجبور ہے ؟

لاہور(ویب ڈیسک) دنیا کے ہر انسان کو اس کے والدین پالتے پوستے اور پروان چڑھاتے ہیں مگر آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ دنیا کے ایسے چارانسان بھی ہیں جنہیں جانوروں نے پروان چڑھایا۔ ان میں یوکرائین کی اوگزیا ملایا بھی شامل ہے۔ 1991میں یوکرائن میں اس وقت ایک حیران کن انکشاف ہوا کہ ایک لڑکی جو کتوں کے ساتھ رہتی ہے اور ان ہی جیسی حرکت کرتی ہے۔ جب انتظامیہ نے تحقیق کی تو معلوم ہوا ہے کہ اوگزانا ملائیا نامی یہ لڑکی کتوں کے ساتھ اس وقت سے رہ رہی تھی جب بچپن میں اس کے شرابی خاندان اسے گھر کے باہر رکھ کر بھول بیٹھا ، اوگزانا اس وقت صرف محض تین برس کی تھی۔ اتنے سال انسانوں سے تعلق نہ ہونے کی وجہ سے اس میں کتوں جیسی عادتیں پیدا ہو چکی تھی، وہ چار ٹانگوں پر چلتی اور بھونکتی تھی۔ اگر کوئی اس کے قریب آنے کی کوشش کرتا تو وہ کتوں کی طرح دانت نکال کر اس پر غرانے لگتی۔ ایک لڑکی کی کتوں جیسی حرکتیں اور کتوں کے ساتھ رہنے کی خبر نے تہلکہ مچا دیا اور فیصلہ یہ ہوا کہ اوگزانا کو کتوں کے چنگل سے نجات دلا کر واپس انسانی تہذیب کا حصہ بنایا جائے۔ ریسکیو اہلکار جب اوگزانا کے قریب گئے تو اوگزانا کو اپنا سمجھنے والے کتوں نے اودھم مچا دیا اور انہوں نے ریسکیو اہلکاروں پر بھونکنا شروع کر دیا۔ گہرے مطالعے اور معاشرتی ماحول کے باعث اوگزانا کو انسانوں جیسا برتاو کرنے اور انسانوں جیسا بولنے کیلئے کئی سال لگ گئے تاہم وہ واپس انسانی تہذیب کی جانب لوٹ آئی۔دوسرے نمبر پر میرینا چیپ مین سامنے آتی ہے جس کو بندروں نے پالا اور پروان چڑھایا۔ 1954میں محض پانچ سال کی عمر میں میرینا چیپ مین کو اغوا کر لیا گیا، میرینا کولمبیا میں اپنے خاندان کے ہمراہ مقیم تھی جب اسے اغوا کیا گیا۔اغوا کاروں نے میرینا کو ایک ویران جنگل میں مرنے کیلئے چھوڑ دیا،میرینا اس جنگل میں بندروں کے قبیلے میں جا پہنچی۔ پانچ سال تک میرینا بندروں کی حرکات و سکنات کا مشاہدہ کرتی رہی کہ وہ کیسے کھاتے ہیں، کیسے پیتے ہیں، کیسے رہتے ہیں اور کیسے بات کرتے ہیں۔ بالآخر بندروں نے میرینا کو اس طرح اپنایا کہ جیسے وہ ان کے خاندان کا حصہ ہو۔ بندروں نے میرینا کو سکھایا کہ زندہ رہنے کیلئے کس طرح سے دشمن کا سامنا کرنا چاہئے۔ کافی عرصےبعد ایک شکاری اسی جنگل میں شکار کر رہا تھا کہ اس کی بندروں کے ایک غول پر نظر پڑی تو وہ حیران رہ گیا کیونکہ بندروں کے اس غول میں اس نے ایک برہنہ لڑکی کو بالکل بندروں کی طرح حرکات و سکنات کرتے دیکھا تھا۔ شکاری نے میرینا کو ایک بار پھر اس کے بندر خاندان سے جدا کرتے ہوئے اغوا کر لیا اور ایک مخصوص جگہ لے گیا جہاں اسے دوبارہ سے انسانی تہذیب میں واپس لانے کیلئے کوششیں شروع کر دیں۔ میرینا اس وقت دو بیٹیوں کی ماں ہے۔ میرینا کی بندروں کے ساتھ گزارے شب و روز جو کئی سالوں پر محیط تھے پر اس نے ایک کتاب بھی لکھی جس کا نام اس نے ’’اے گرل وِد نو نیم ‘‘رکھا۔تیسرے نمبر پر ایک لڑکا آتا ہے جسے اینڈس کی پہاڑیوں پر رہنے والی بکریوں نے پروان چڑھایا، یہ لڑکا 8سال تک بکریوں کے ساتھ وابستہ رہا، وہ بکریوں تک کیسے پہنچا اور وہ کیا حالات تھے جنہوں نے اسے اس کے والدین سے جدا کر دیا تاحال معلوم نہیں ہو سکے۔ یہ لڑکا 8سال تک بکریوں کا دودھ پیتا رہا اور جڑی بوٹیاں کھا کر گزارا کرتا رہا۔ جب اسے دریافت کیا گیا تو یہ انسانوں سے بات یا کمیونیکیشن کے قابل نہ تھا البتہ بکریوں کے ساتھ اس کی کمیونیکیشن ہوتی تھی، یہ بھی نقل و حرکت کیلئے بکریوں کی طرح چار ٹانگوں کا استعمال کرتا،آٹھ سال تک بکریوں کی طرح رہنے اور برتاؤ کرنے اور ان کی طرح چلنے کی وجہ سے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں فرق آچکا تھا اور وہ غیر متعدل ہو چکی تھی۔ کینسس یونیورسٹی نے اس لڑکے پر مطالعہ کیا اور اس کا نام ڈینئل رکھ دیا گیا۔چوتھے نمبر پر جنگلی جانوروں کے ذریعے پروان چڑھنے والی تیسری لڑکی سامنے آئی ۔ جنوری 2007 میں ایک خاتون نہایت سہمے اور ڈرے ہوئےبرہنہ حالت میں کمبوڈیا کے صوبے ریٹنا گیری میں دریافت ہوئی، اس سے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ قریبی گاؤں کے ایک خاندان کی بیٹی تھی اور اس کا خاندان 20 برس قبل نامعلوم وجوہات کی بنا پر اچانک غائب ہو گیا تھا۔ جب اس کا خاندان لاپتہ ہوا اس وقت اس کی عمر 8برس تھی، اس کا نام رشمون پیونگ یونگ تھا۔ اس کو کمبوڈیا کے ایک گھنے جنگل سے دریافت کیا گیا۔ اس سے متعلق کہا جاتا ہےکہ جنگل میں بہت سے جانوروں کے دوستانہ تعلقات کی وجہ سے یہ زندہ رہ جانے میں کامیاب ہو سکی۔ ان جانوروں میں بندر بھی شامل تھے، یہ اندازہ اس لئے لگایا گیا کہ کیونکہ جب یہ دریافت ہوئی تو اس کا زیادہ تر چال چلن بندروں سے مشابہہ تھا۔ جب رشمون کا پتہ چلا تو اس کے والد نے اسے پہچان لیا جو کہ پولیس اہلکار تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ جب اس کے والد نے اسے پہچانا اس وقت یہ انسانوں کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے میں مشکلات کا شکار تھی جبکہ اس کیلئے اس وقت انسانوں سے کمیونیکیشن بھی بہت مشکل تھی۔ اس کا خاندان اسے واپس انسانی تہذیب میں لانے کیلئے ڈٹ گیا اور اس پر گہری نظر رکھنے لگا کیونکہ جیسے ہی یہ اکیلی ہوتی یہ واپس جنگل کی جانب جانے کی کوشش کرتی اور وہاں جا کر یہ کپڑے اتار کر برہنہ ہو جایا کرتی۔ اس کا خاندان کئی سال تک اس کی نگہبانی اور نگہداشت کرتا رہااور اس کو انسانی تہذہب کا حصہ بنانے کیلئے سر توڑ کوششیں کرتا رہا مگر بالآخر 2010 میں یہ لڑکی واپس جنگل کی طرف پلٹ گئی جس کے بعد اسے دوبارہ کبھی بھی نہیں دیکھا گیا۔ ان واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جانوروں میں بھی رحمدلی کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے جس کی مثال یہ چار انسانی بچے تھے جو جانوروں میں پرورش پا کر پروان چڑھے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website