counter easy hit

جب کبھی چاند گرہن لگتا تو نبی اکرمؐ کیا کام کرتے تھے،آپ خود بھی پڑھیں اور دوسروں کو بھی بتائیں، ایمان افروز تحریر

Whenever the moon seemed to be a moon, what did the Prophet Akram do, read yourself and tell yourself, believe in Islam
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) حضوراقدس ؐ کے زمانہ میں سورج گرہن ہو گیا . صحابہ ؓ کو فکر ہوئی کہ اس موقع پر حضورؐ کیا عمل فرماتے ہیں اس کی تحقیق کی جائے جو حضرت اپنے اپنے کام میں مشغول تھے چھوڑ کر دوڑے ہوئے آئے ۔نوعمر لڑکے جو تیر اندازی کی مشق کر رہے تھے ان کو چھوڑ کر لپکے ہوئے آئے تا کہ یہ دیکھیں کہ حضورؐاس وقت کیا کریں گے. نبی اکرمؐ نے دو رکعت کسوف کی نماز پڑھی جو اتنی لمبی تھی کہلوگ غش کھا کر گرنے لگے .نماز میں نبی اکرمؐ روتے تھے اور فرماتے تھے :اے رب! کیا آپ نے مجھ سے اس کا وعدہ نہیں فرما رکھا کہ آپ ان لوگوں کو میرے موجود ہوتے ہوئے عذاب نہیں فرمائیں گے اور ایسی حالت میں بھی عذاب فرمائیں گے کہ وہ لوگ استغفار کرتے رہیں .حضورؐ نے لوگوں کو نصیحت فرمائی کہ جب کبھی ایسا ہو اور آفتاب یا چاند گرہن ہو جائے تو گھبراکر نماز کی طرف متوجہ ہو جایا کرو۔‎‎ دوسری جانب اس کے مختلف اسباب ذکر کیے جاتے ہیں۔ سائنسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ زمین کے گرد چاند گردش کرتا ہے اور چاند زمین کی طرح تاریک ہے، وہ سورج سے روشنی حاصل کرتا ہے، جب وہ سورج کے گرد گردش کرتے ہوئے سورج اور زمین کے درمیان آجاتا ہے تو سورج کی روشنی زمین پر پہنچنے سے رک جاتی ہے جس سے سورج گرہن واقع ہوتا ہے۔ اور جب زمین درمیان میں آجاتی ہے اور وہ چاند پر روشنی نہیں پڑنے دیتی تو چاند گرہن واقع ہوتا ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں سمجھا جاتا تھا کہ کسی شخص کی موت یا کسی بڑے حادثے پر سورج یا چاند کو گرہن لگتا ہے۔ برصغیر میں لوگوں کا خیال ہے کہ اس موقع پر حاملہ خواتین چھری وغیرہ کا استعمال نہ کریں کیوں کہ سورج یا چاند کے گرہن ہونے کی وجہ سے ان کے پیٹ میں موجود بچے کا ہونٹ وغیرہ کٹ جاتا ہے، حالاں کہ حقیقت سے اس کا کوئی بھی تعلق نہیں ہے، نہ شرعی اعتبار سے اور نہ ہی سائنس کے اعتبار سے، یہ صرف لوگوں کا وہم و گمان اور جہالت ہے۔ ہمارا یہ ایمان و عقیدہ ہے کہ شریعت اسلامیہ میں زندگی گزارنے کا مکمل طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ اگر واقعی اس موقع پر حاملہ عورت کے لیے چھری وغیرہ کا استعمال کرنا نقصان دہ ہوتا تو پوری کائنات کے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ اﷲ کے حکم سے اس کے متعلق احکام ضرور بیان فرماتے۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں جب سورج گرہن ہوا، اسی دن آپؐ کے صاحب زادے حضرت ابراہیمؓ کی وفات ہوئی اور بعض لوگ یہ کہنے لگے تھے کہ گرہن ان کی موت کی وجہ سے ہوا ہے، تو آپ ﷺ نے اس کی تردید کرکے بیان کیا کہ سورج اور چاند اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ کسی کی موت کی وجہ سے یہ گرہن نہیں ہوتے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس موقع پر لمبی نماز پڑھی۔ نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق آج تک پوری امت مسلمہ کا یہی معمول ہے کہ اس موقع پر نماز پڑھی جائے، اﷲ کا ذکر کیا جائے اور دعا کی جائے۔ دنیا میں ایسا عظیم الشان نظام ہے کہ وقت پر سورج کا طلوع ہونا، غروب ہونا، چاند اور کروڑوں ستاروں کا خلا میں موجود ہونا، ہواؤں کا چلنا، سورج اور چاند سے روشنی کا ملنا، زمین کے اندر بے شمار خزانے اور زمین میں بڑے چھوٹے پہاڑوں کا موجود ہونا، بادلوں سے بارش کا ہونا، زمین میں پیداواری صلاحیت کا ہونا، پھلوں میں ذائقے کا پیدا ہونا، پانی اور آگ کا موجود ہونا، اسی طرح چرندوں، درندوں اور پرندوں کی بے شمار مخلوقات کا موجود ہونا سب اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان کو پیدا کرنے والی کوئی نہ کوئی ذات ہے، ورنہ یہ سارا نظام کیسے اور کیوں قائم ہوگیا ؟ آج ہم ایک چھوٹا سا کام بھی کرتے ہیں تو اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے، نیز اس کے لیے بہت کچھ کرنا ہوتا ہے اور پھر وہ ایک نہ ایک دن ختم بھی ہوجاتا ہے۔عظیم بادشاہ زمین میں دفن کردیے گئے۔ مضبوط قلعے کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے اور حویلیاں ویران ہوگئیں۔ یقیناً وہ اﷲ تعالیٰ کی ہی ذات ہے جو نہ صرف انس و جن کا خالق ہے بل کہ پوری کائنات کا پیدا کرنے والا ہے اور صرف وہی اس پوری کائنات کے نظام کو چلانے والا ہے اور ہم سب اس کے بندے ہیں۔ دنیا کی بے شمار چیزیں نہ سمجھنے کے باوجود ہم تسلیم کرلیتے ہیں، اسی طرح بات سمجھ میں آئے یا نہیں ہمارا یہ ایمان و عقیدہ ہے کہ اتنی بڑی کائنات خود بہ خود نہیں بن سکتی اور اتنا بڑا نظام خود بہ خود قائم نہیں رہ سکتا۔ سورج و چاند کا کیسا عجیب وغریب نظام ہے کہ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود ایک سیکنڈ کا بھی فرق نہیں آیا۔ جس طرح وقتی طور پر اﷲ کے حکم سے سورج یا چاند کو گرہن لگتا ہے، ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ یہ سورج اﷲ کے حکم سے مشرق کے بہ جائے مغرب سے طلوع ہوگا جیسا کہ آج کے سائنس دانوں نے بھی اس کے امکان کو تسلیم کرلیا ہے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ پوری دنیا ختم ہوجائے گی اور پھر دنیا کے وجود سے لے کر تمام انسانوں کو ان کے کیے ہوئے اعمال پر جزا یا سزا دی جائے گی۔ غرض یہ کہ سورج یا چاند کے گرہن لگنے میں کسی مخلوق کا نہ دخل ہے اور نہ ہی پوری کائنات مل کر سورج یا چاند کے گرہن کو روک سکتی ہیں۔ اس لیے سورج یا چاند کے گرہن کے وقت صرف اﷲ تعالیٰ کی ہی پناہ مانگی جائے، اسی کے سامنے جھکا جائے اور اسی کے در پر جاکر پیشانی ٹیکی جائے کیوں کہ وہی اس کائنات کا خالق بھی ہے اور مالک و رازق بھی۔ نبی اکرم ﷺ سورج گرہن لگنے پر مسجد میں داخل ہوکر نماز میں مصروف ہوئے تھے، اس لیے اگر ایسے موقع پر باہر نکلنے سے بچا جائے اور بہ راہ راست سورج کو نہ دیکھا جائے تو یہ عمل احتیاط پر مبنی ہوگا، کیوں کہ سائنسی اعتبار سے بھی اس نوعیت کی احتیاط مطلوب ہے، لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ہمارا تو ایمان ہے کہ جو تکلیف یا آسانی اﷲ تعالیٰ کی جانب سے مقدر میں ہے وہ مل کر ہی رہے گی، اگرچہ تکلیف سے بچنے اور آسانی کے حصول کے لیے تدابیر و اسباب ضرور اختیار کرنے چاہییں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website