counter easy hit

وہ واقعہ جب بینظیر بھٹو کے بھائی اور اسکے ساتھیوں نے ایک فوجی افسر کو شہید کرکے اس کی لاش طیارے سے نیچے پھینک دی تھی ۔۔۔۔۔ صف اول کے صحافی نے موجودہ حالات کے پس منظر میں انوکھا واقعہ بیان کر ڈالا

لاہور(ویب ڈیسک)نامور کالم نگار نواز خان میرانی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں بہت پہلے کی بات ہے ، میرے ایک قریبی عزیز جو سرکاری محکمے کے اعلیٰ عہدہ دار تھے اُن دنوں پی آئی اے کا ایک طیارہ اغوا کر کے بے نظیر بھٹو مرحوم کے بھائی نے جنرل ضیاءالحق کی حکومت کے خلاف اور اپنے خاندان کے ساتھ بقول اُن کے ناروا اور   ظالمانہ سُلوک کرنے کی بنا پر کابل ” ہائی جیک “ کر لیا تھا، جس کی خبریں ہر بلیٹن میں سُنوائی جاتی تھیں، اور ہر پاکستانی اَغوا کاروں، اور مُسافروں کے بارے میں نہایت بے چین تھا، اُنہوں نے اپنے مطالبات تسلیم کرانے کی غرض سے الٹی میٹم دے کر نوٹس دینے شروع کر دیئے تھے، بلکہ سفاکانہ طریقے سے طیارے میں سوار ایک فوجی اَفسر کو شہید کر کے اس کی لاش طیارے سے نیچے پھینک دی تھی، حکومت پاکستان کے خلاف اُس وقت ذوالفقار بھٹو شہید کے بیٹے نے الذولفقار تنظیم کے نام سے دہشت گردوں کا ایک گروہ بنایا ہوا تھا، اور پاکستان کے اندر بم دھماکے سمیت دہشت گردانہ کارروائیاں ان کا معمول تھا۔ اور آئے روز دھمکیاں دینا، اور خود کو ہیرو ثابت کرنا اُن کا وطیرہ تھا، بچوں کے ذہن چونکہ معصوم اور اچھے بُرے کی تمیز اور اپنے مفاد اور خیال سے بھی اتنے آشناءنہیں ہوتے، ایک دن میرے ان خالہ زاد بھائی جو عدلیہ کے اعلیٰ افسر تھے، جن کا ذکر میں اپنی ان ابتدائی سطور میں کر چکا ہوں، اُن کے بیٹے جن کا نامہ طہٰ خلیل ہے اُس وقت وہ چھوٹے بچے تھے، ایک دن اُن کے والد صاحب کے ایک دوست گھر ملنے آئے، تو اُنہوں نے طہٰ خلیل سے پوچھا، کہ بیٹا آپ بڑے ہو کر کیا بنیں گے، تو اُنہوں نے اپنی توتلی زبان میں کہا، کہ انکل بڑے ہو کر میں ” دہشت گرد “ بنوں گا…. خیر اب وہ طہٰ خلیل حافظِ قرآن اور معروف ڈاکٹر ہیں۔ میں بھی چونکہ اُس بچے کا چچا ہوں، تو میں نے اگر یہ کہہ دیا ہے ، کہ میں بھی کسی کو نہیں چھوڑوں گا، تو اُمید ہے ، قارئین آپ میری اِس بات کا بُرا نہیں مانیں گے، بُرا آپ کو اِس لئے بھی نہیں منانا چاہئے، کہ اگر ہمارے ملک کے وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے ، میں کسی چور، ڈاکو کو نہیں چھوڑوں گا، اور اتفاق خیالات و عقائد و نظریات ، بیانیہ دیکھئے کہ پاکستان کے سُپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی یہی بیان دیتے ہیں، کہ میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا، الفاظ کی یہی باز گشت کہ بیرون ملک جائیدادوں اور منی لانڈرنگ کرنے والوں کو میں نہیں چھوڑوں گا، اور اِس طرح کام نہیں چلے گا، میں بھی یہیں آکر بیٹھ جاﺅں گا، اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمرانوں کے بیانات اور الفاظ عوام کے ذہنوں میں بھی بچوں کی طرح سرایت کرتے ہیں۔

جیسے کہ میں نے عرض کیا ہے کہ یہ اتفاقات ، زمانہ ہیں، ورنہ چیف جسٹس صاحب اور عمران خان صاحب کے بیانات میں اتنی مماثلت ، اتنی ہم آہنگی ، اتنی اپنائیت کِس طرح ممکن ہے، غالباً ایک دفعہ چیف جسٹس صاحب نے خود بھی فرمایا تھا، کہ میں عمران خان سے پہلے کبھی نہیں مِلا ہوا، میں نے یہ بھی پڑھا ہوا ہے، کہ بعض اوقات دنیا کے مُلکوں میں ” سائنسدان بیک وقت کوئی چیز ایجاد کرتے ہیں، مگر اُن میں سے جو پہلے اِس ایجاد کا اعلان کر دیتا ہے، دُنیا اُس کو اِس اعزاز کا مستحق سمجھتی ہے، شاید اِن دونوں کے بیانات میں بھی کچھ ایسی ہی صورت کار فرما ہو، مثلاً جیسا کہ ایک شخصیت کو دوسروں کو معافی منگوا کر اور معافی نامہ لکھوا کر اگر ذہنی، جسمانی بلکہ اعصابی تشفی ہوتی ہے تو پھر متاثرین عدل کو کسر نفسی دکھانے سے کیا فرق پڑتا ہے، اللہ تعالیٰ کو اگر عاجزی ، انکساری بہت پسند ہے ، جبکہ جسمانی زبانی ، نقل و حرکت میں تکبر اور ریا کاری بالکل پسند نہیں ہے، کیونکہ تکبر صرف اور صرف اللہ سبحان و تعالیٰ کو ہی سزا وار ہے، اور اُسی کو زیب دیتا ہے۔عالمِ اسلام کے عظیم ترین ، دانشور اور حضرت محمد ﷺ سے نسبت رکھنے والے امام جعفر صادق کا فرمان ہے، کہ تیرے تکبر کا تخم یعنی بیج، خوشامدی لوگ ہوتے ہیں،اور اِس بات پر بھی تو غور کرنا چاہئے کہ کسی کو جب اُس کی بساط اور ظرف و اُوقات سے زیادہ دُنیا مل جاتی ہے، تو پھر لوگوں کے ساتھ اُس کا سلوک اور برتاﺅ نامناسب اور بُرا ہو جاتا ہے، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے، کہ مغرور شخص کا کوئی دوست نہیں ہوتا، اِس لئے کہ دوستی میں مساوات، اور احساسِ برابری و مساوات کی ضرورت ہوتی ہے، اور مغرور انسان کو یہ بات پسند نہیں ہوتی، قابل غور بات یہ ہے کہ وہ نہیں چاہتا اور مغرور کو کوئی نصیحت نہیں کر سکتا کیونکہ وہ ناصح کو یعنی نصیحت کرنے، اور سبق دینے والے کو اپنے سے برتر نہیں سمجھتا، اور یہ شخص منفی پن اُس میں ضرور موجود ہوتا ہے۔قارئین، حالیہ آسیہ کے مسئلے پر اپنی کوئی رائے، یا اظہار خیال کے بغیر اگر اِس کے مثبت پہلو کے اثرات جو ہماری حکمران جماعت کے اکابرین میں چند دنوں میں سرایت کر گئے اور اُن میں دھیما پن عود کر آیا ہے ، کاش احساس تقاخر کے بجائے، معاملہ فہمی اور نزاکت وقت کا جذبہ اور فکر ان میں پہلے سے موجود ہوتا تو یہ صورت حال نہ ہوتی، اور محب وطن ہم وطن اپنے قلب و جگر کو اتنا مخدوش نہ کرتے۔ اسلام چونکہ مکمل ضابطہ حیات ہے، اِس میں ایک حکمران کی خصوصیت کے بارے میں بھی مکمل معلومات موجود ہیں، اپنے ہر مخالف سیاستدان کو چور اور ڈاکو کہنا، سرا سر زیادتی اور انصاف کے صریحاً خلاف ہے، جب تک ثبوت نہ ہواور جب تک چور اور ڈاکو کسی کو بھی ثابت نہ کیا جاسکے، تو اُن کے خلاف ایسے الفاظ کا استعمال بھی ناقابل برداشت ہے،

اِس لئے خدارا ہوش کے ناخن لیئے جائیں، اور قوم پہ رحم کریں، حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جب صبح سویرے اُٹھتا ہے تو اُس کے سارے اعضا انسان مل کر زبان کو یہ یاد دہانی کراتے ہیں کہ ہمارے معاملے میں تم اللہ سے ڈرتی رہنا کیونکہ ہماری کارکردگی کا انحصار تمہی پر ہے، اگر تم سیدھی رہیں تو ہم سیدھے رہیں گے، اور اگر تم میں کوئی کجی اور کمی آگئی تو ہمارے کام بھی ٹیڑھے ہونگے( ترمذی) اب مجھے نہیں معلوم کہ صوبائی اور وفاقی سطح پر عوام کو اطلاعات بہم پہچانے والے صبح سویرے اپنے اعضا کے ساتھ زبان کو کیا یاد کراتے ہونگے؟ مگر ہمیں تو حضرت علامہ اقبال ؒ بتاتے ہیں، کہ یہ دولت خداداد ہے، جس کو اللہ توفیق دے صرف اُس کو عطا ہوتی ہے، یا جس کی تمنا اور دُعا کی جائے۔۔۔۔۔ موجوں کی تپش کیا ہے، فقط ذوق طلب ہے ۔۔۔۔۔پنہاں ہے، جو صدف میں ہے، وہ دُولت ہے خداداد

(بشکریہ روزنامہ نئی بات)