counter easy hit

25 جولائی کا نتیجہ کیا نکلے گا ، اگلی حکومت کس کی اور کس قسم کی بنے گی ؟ ہارون الرشید نے تحریک انصاف کا الیکشن کے بعد کا لائحہ عمل سامنے رکھتے ہوئے پیشگوئی کر ڈالی

لاہور ; ایک قابلِ ذکر تعداد نے جب فیصلہ ہی نہ کیا ہو کہ انہیں ووٹ ڈالنا بھی ہے یا نہیں، فتح و شکست کے بارے میں کیا پیش گوئی کی جا سکتی ہے ؟ دس سے پندرہ فیصد کا رجحان ابھی واضح نہیں کہ وہ کس کی حمایت کریں گے۔ اس کے باوجود مستقبل

معروف تجزیہ کار ہارون رشید اپنی ایک رپورٹ مں لکھتے ہیں ۔۔۔۔کے خدوخال کسی قدر واضح ہونے لگے ہیں۔ زیادہ امکان اب یہی ہے کہ 25 جولائی کے بعد تحریک انصاف کی قیادت میں مخلوط حکومت بنے گی۔نون لیگ کے برسراقتدار آنے کی امید (یا اندیشہ) اب باقی نہیں، الاّ یہ کہ نوازشریف سے خفیہ ملاقات اور نامہ و پیام کرنے والے آصف علی زرداری دھماکہ خیز فیصلہ کرلیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ نون لیگ سے مل کر متحدہ محاذ تشکیل دینے کا اعلان کریں۔ بعض غیرملکی اور ان کے کارندے جس کے آرزومند ہیں۔ تمنا ایک چیز ہے اور حالات کا رخ دوسری۔ مرکز میں پانچ اور سندھ میں دس سالہ اقتدار کے حوالے سے جو کارنامے زرداری صاحب انجام دے چکے ہیں ان کا بوجھ اٹھا کر کسی مہم جوئی کے وہ مرتکب نہیں ہو سکتے ۔ موصوف کی صحت بھی اب اس قابل نہیں۔ تصاویر میں وہ بہتر دکھائی دیتے ہیں مگر کرسی پر بیٹھنے اور اٹھنے ، کار میں داخل ہونے اور اترنے کے لیے اب انہیں سہارے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ شوگر کا مرض اپنی قیمت وصول کر رہا ہے اور دل کی خرابی بھی۔ ذہنی دباؤ اور نیند کی خرابی اس کے سوا ہے۔

نون لیگ کے ساتھ مفاہمت میں زیادہ بڑا خطرہ یہ ہے کہ خود شریف خاندان کی ساکھ متاثر ہوگی۔سینیٹ کے الیکشن کے بعد جو شریف خاندان تاثر دیتا آیا ہے کہ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی میں ایک طرح کی محدود مفاہمت موجود ہے۔مزید برآں سندھ میں پیپلزپارٹی کے اقتدار کا خواب بھی پریشان ہو سکتا ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ جب سے پیرپگارا کے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، پی ٹی آئی اور پاک سرزمین پارٹی میں مفاہمت بڑھی ہے۔ کچھ آزاد امیدواروں کے جیتنے کا امکان بھی پہلے سے زیادہ ہے۔ جوئے کی ایسی بازی کائیاں آصف علی زرداری نہ کھیلنا چاہیں گے جس میں اصلی زر ہی جاتا رہے ۔ وسطی پنجاب میں نون لیگ کے لیے بھی اس سے مشکلات جنم لے سکتی ہیں۔ شمالی اور وسطی پنجاب میں کامیابی ہی پر شریف خاندان کے مستقبل کا انحصار ہے ۔ مبصرین اس پر متفق ہیں کہ پختون خوا اور شمالی پنجاب میں پی ٹی آئی کو برتری حاصل ہے ۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران نون لیگ اور تحریک انصاف کی مقبولیت میں فاصلہ کم ہوا ہے ۔ بڑھتے ہوئے اس امکان نے کہ مستقبل میں عمران خان سب سے اہم کھلاڑی ہوں گے ان طبقات کو تحریک انصاف کی طرف مائل کیا ہے

روایتی طور پر جو نون لیگ کے پشت پناہ رہے ہیں۔ جمعہ کی مہم جوئی کے لیے کاروباری لوگوں نے کچھ زیادہ مالی مدد فراہم نہیں کی۔ جب کہ تحریک انصاف کے لیے عطیات میں اضافہ ہوا ہے ۔ نون لیگ کے کارکن پژمردگی کا شکار ہیں۔ عمران خان کے نوجوان حامیوں کے حوصلے بڑھے ہیں۔ گھر گھر جا کر ووٹروں سے رابطہ کرنے میں بھی مؤخرالذکر کا پلہ بھاری ہے۔وسطی پنجاب میں نون لیگ کے ووٹر اب بھی زیادہ ہیں۔ مگر ایسے کارکنوں کی کمی ہے جوپشت پناہی اور مالی سرپرستی کے بغیر سرگرم عمل رہیں۔ جمعہ کے روز برپا کئے گئے مظاہروں سے پارٹی کو اگر فائدہ پہنچا ہے تو نقصان بھی۔ لیگی لیڈر اور کارکن اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے کہ شہبازشریف نے ہوائی اڈے پر پہنچنے کی منصوبہ بندی اور بھرپور کوشش کیوں نہ کی۔ گرد بیٹھ جانے کے بعد اب یہ واضح ہے کہ کسی بھی مرحلے پر شہر بھر میں مظاہرین کی تعداد12سے 15 ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ قومی اسمبلی کے 12، صوبائی اسمبلی کے 35 ارکان کے علاوہ 3000 بلدیاتی کونسلروں کی حمایت کے باوصف یہ تعداد بہرحال بہت کم ہے ۔ بظاہر نون لیگ اپنی عزت بچانے میں کامیاب رہی لیکن خود کواحتجاجی قوت

وہ ثابت نہ کر سکی۔ ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ امیدوار اپنے حلقوں میں مصروف تھے ۔ پہلے سے وسائل بھی اب میسر ہیں۔ 2013ئکے برعکس اب وہ فراوانی سے روپیہ خرچ نہیں کر سکتے ۔ کراچی کے کاروباری دیوتاؤں کی ایک بڑی تعداد تحریک انصاف کی طرف مائل ہے ۔ ان کا مسئلہ قومی ترجیحات نہیں ہوتیں بلکہ وہ سازگار ماحول جس میں اپنی سرگرمیاں زیادہ آزادی سے وہ جاری رکھ سکیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ نون لیگ اگر وسطی اور شمالی پنجاب تک محدود ہے تو تحریک انصاف کا غلبہ مخصوص علاقوں تک محدود ہے ، اگرچہ بلوچستان اور فاٹا کے علاوہ وہ آزاد ارکان سے عمران خان حمایت کی امید کر سکتے ہیں شہبازشریف نہیں۔ سابق حکمران جماعت کی ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے باب میں اس کا روّیہ اب بھی یکسوئی سے محروم ہے ۔ شہبازشریف کچھ آگے بڑھے ہیں اور اداروں پر زیادہ تنقید کر رہے ہیں۔ مگر اب بھی وہ مفاہمت کے خواہش مند ہیں۔ ان کی مشکل یہ بھی ہے کہ عزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے سے رہائی کے باوجود نیب ابھی تک ان کے تعاقب میں ہے ۔ ایک بار پھر انہیں طلب کیا گیا ہے ۔ دوسری چیزوں کا تو شاید کوئی جواز وہ پیش کر سکیں

مگر پنجاب میں 56 کمپنیوں کی تشکیل اور آشیانہ ہاؤ سنگ میں اپنے کردار کا آسانی سے وہ دفاع نہیں کر سکتے ۔ کچے دھاگے سے بندھی تلوار آخری وقت تک ان کے سر پہ لٹکتی رہے گی۔ بالآخر مریم نواز ہی کو اگر پارٹی کی قیادت سنبھالنی ہے تو اپنا سب کچھ وہ داؤ پر کیسے لگا سکتے ہیں۔نون لیگ کی ایک امید پختون خوا سے وابستہ ہے جہاں تقریباً سب کے سب فریق عملاً پی ٹی آئی کے خلاف متحد ہو چکے ہیں ۔ اگلے چند دنوں میں نون لیگ اور متحدہ مجلس عمل کے درمیان کچھ سیٹوں پہ مفاہمت ہو سکتی ہے ، پی ٹی آئی کے بعد جو صوبے کی سب سے بڑی طاقت بن کے ابھرنے والی ایم ایم اے کے مسائل دلچسپ ہیں۔ 2002ئسے 2008ئتک اس کی حکومت میں دہشت گرد فروغ پاتے رہے ۔ اتحاد کی قیادت مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ میں ہے ، مالی بے قاعدگیوں کے باب میں جن کا تاثر بہت خراب ہے ۔ لیڈرشپ اگر سراج الحق کے پاس ہوتی تو صورتحال مختلف ہوتی ۔ اقتدار کے دونوں ادوار میں جماعت اسلامی کے وزرائپر بدعنوانی کے الزامات نہیں لگے ۔ ان میں سے بعض مثالی کارکردگی کا دعویٰ کرتے ہیں تو تردید کم ہی کی جاتی ہے ۔

ایم ایم اے کا سب سے بڑا اثاثہ مولانا فضل الرحمن ہیں….اور سب سے بڑا مسئلہ بھی۔ آخری تجزیے میں یہ دونوں پارٹیوں کا ووٹ بینک ایک مذہبی مکتبِ فکر پہ منحصر ہے …. اور مولانا فضل الرحمن ہی اس مکتبِ فکر کے سیاسی ترجمان ہیں۔ متحدہ مجلس عمل پختون خوا سے قومی اسمبلی کی 39 سیٹوں میں سے 15 سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے اور قبائلی پٹی میں کامیاب رہے تو حکومت کی تشکیل میں اس کی اہمیت بڑھ جائے گی۔ ظاہر ہے کہ ہمیشہ کی طرح مولانا بڑے حصّے کا مطالبہ کریں گے ۔ چند ماہ قبل اطلاع یہ تھی کہ ایک پیغام مولانا صاحب نے فیصلہ سازوں کو بھیجا ہے ۔ پرچون کا نہیں میں تھوک کا سودا کرنا چاہتا ہوں۔سندھ میں پیپلزپارٹی کے اقتدار سنبھالنے کا امکان اب بھی زیادہ ہے ، اگرچہ پہلی سی اکثریت ہرگز حاصل نہ ہوگی۔ بعض مبصرین کا خیال برعکس ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اکتاہٹ کا عنصر بروئے کار آئے گا۔ مہاجروں کی نمائندگی کرنے والے مختلف دھڑوں، فنکشنل لیگ، پاک سرزمین پارٹی اور پی ٹی آئی پر مشتمل حکومت کا قیام خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نتیجے کا بہت کچھ انحصار اس پر ہے کہ پیپلزپارٹی کراچی میں کتنی سیٹیں حاصل کر پاتی ہے ۔

اس پر بھی کہ اندرون سندھ پولیس اور افسر شاہی کو استعمال کرنے کے کس قدر مواقع اسے ملتے ہیں۔ پیچیدہ سیاسی صورت حال کا ایک پہلو یہ ہے کہ مستقبل میں محترمہ مریم نواز ہی کو نون لیگ کا لیڈر سمجھا جا رہا ہے ۔ سادہ سی اور آسانی سے سمجھ میں آنے والی دلیل یہ ہے کہ شہبازشریف منتظم تو اچھے ہیں مگر ان کی شخصیت میں وہ سحر نہیں پایا جاتا جو جلسہ گاہوں کو بھر دے اور کارکنوں کو متحرک رکھے ۔اس بیچاری کی مشکل یہ ہے کہ جیل میں ایک پورا دن گزرنے سے پہلے ہی میاں نوازشریف نے مچھروں کی موجودگی پہ رونا پیٹنا شروع کردیا ہے ۔ صاحبزادی کی ہمت بھی وہ توڑ ڈالیں گے ۔ کیا ایک بار پھر وہ سمجھوتے کی طرف مائل ہو جائیں گے ۔سیاسی مبصرین نون لیگ کے لیے کم و بیش 50 اور تحریک انصاف کے لیے 80 سے زیادہ نشستوں کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ عمران خان اگر کاشت کاروں کے درد دل کو سمجھ سکے ۔ ان کا مقدمہ خوبی اور جوش و خروش سے لڑ سکے ۔ اگر بھٹو کی طرح ایک ایک قوم پرست لیڈر بن کے ابھر سکیں۔ پاکستان میں تخریب کاری پہ تلے بھارت کو للکار سکے تو صورت حال مختلف بھی ہو سکتی ہے ۔تحریک انصاف کی سیٹوں میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔ مبصرین کے لیے یہ ناقابل فہم ہے کہ ان چیزوں پر وہ کیوں توجہ نہیں دے رہے ؟ کیا یہ محض ان کی سادگی اور کم فہمی ہے یا اس سے کچھ زیادہ؟ اس پر بہرحال اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ الیکشن کے فوراً بعد استحکام کا حصول سہل نہ ہوگا۔ ہفتوں یاشاید مہینوں کی کوششیں درکار ہوں۔واضح ہے کہ نون لیگ کے برسراقتدار آنے کا اب کوئی امکان نہیں۔