counter easy hit

آرمی چیف نے کیا پیغام دیا؟

کسی بھی ملک کی ترقی کا دارو مدار اس کی معیشت پر ہوتا ہے اور آج کے  دور میں سلامتی اور معیشت ایک دوسرے کے لیےلازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں، ماہرین، مفکرین اور اہل علم اس بات پر متفق ہیں  کہ آنے والے وقت میں کسی بھی ملک کے مستقبل کا دارومدار اس کی فوجی طاقت پر نہیں بلکہ اس کی مضبوط معیشت پر ہوگا، وہ زمانہ گزر گیا جب فوجی طاقت کے بل بوتے  پر عالمی قوت بنا جاتا تھا  اب عالمی قوت بننے کے لیے تجارت میں برتری اولین ضرورت بن چکی  ہے۔

عالمی سطح پر رونما ہونے والی انھی تبدیلیوں اور پاکستان کی موجودہ سیاسی، معاشی اور فوجی صورتحال کے تناظر میں پاک فوج کے سربراہ  جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ دنوں کراچی میں معیشت اور سلامتی کے عنوان سے منعقدہ سیمینار میں معمول سے قدرے ہٹ کر ملکی معیشت اور قومی سلامتی کے تقاضوں کو اجاگر کیا۔

آرمی چیف نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا کی تمام قومیں اپنی سوچ پر نظر ثانی کرتے ہوئے اقتصادی استحکام اور قومی سلامتی کے درمیان توازن پر توجہ دے رہی ہیں، اس لیے ہمیں بھی ایسا توازن یقینی بنانا ہو گا جو ہمارے لوگوں کے لیے پائیدار امن اور خوشحال مستقبل کی ضمانت بن سکے، سلامتی اور معیشت جڑواں حقیقت ہیں، ملکی معیشت ملے جلے اشاریے پیش کررہی ہے، ترقی میں اضافہ ہوا ہے، انفرا اسٹرکچر اور توانائی کے معاملات میں نمایاں بہتری آئی ہے لیکن قرضے آسمان پر چلے گئے ہیں اور تجارتی توازن ٹھیک نہیں، سیکیورٹی اور معیشت کے اہم تعلق کی بہترین مثال سوویت یونین ہے جو عسکری قوت ہونے کے باوجود کمزور اقتصادی حالت کی وجہ سے ٹکڑے ٹکرے ہوگیا، جب کہ اقتصادی لحاظ سے مضبوط ملک کویت پر عراق نے قبضہ کر لیا تھا کیونکہ وہ دفاعی اعتبار سے کمزور تھا۔

صنعت کاروں اور تاجروں کی ملک گیر تنظیم وفاق ایوا ن ہائے صنعت و تجارت ایف پی سی سی آئی اورفوج کے محکمہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے اشتراک سے منعقدہ سیمینار میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بھی خطاب کیا تھا۔ جس پر وزیر داخلہ احسن اقبال نے سخت رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ 2013 کےمقابلے میں معیشت بہت بہتر ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر کو معیشت پر بیانات اور تبصروں سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ پاکستان کی معیشت مستحکم ہے اور غیر ذمے دارانہ بیانات پاکستان کی عالمی ساکھ متاثر کر سکتے ہیں جب کہ آئی ایم ایف پروگرام پر جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ملک میں توانائی کے منصوبوں اور بجلی کی فراہمی سے صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری سے درآمدات پر دباؤ پڑا ہے مگر صورتحال قابل برداشت ہے۔ تاہم وزیر داخلہ نے آسمان کو چھوتے قرضوں کے حوالے سے کوئی وضاحت دینا ضروری نہیں سمجھی اور اس اہم معاملے کو نظرانداز کر دیا۔

حکومت کا اصرار ہے کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران پاکستان کی معیشت میں بہتری آئی ہے لیکن ہماری معیشت اب بھی قرضوں اور خساروں پر چل رہی ہے، قرضوں کی بنیاد پر معیشت کی بہتری ریت کی دیوار کی مانند ہے، حکومت عوام کو معیشت کی بہتری کے سنہرے خواب تو دکھا رہی ہے مگر معروضی حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے وطن عزیز 2013 میں چودہ ہزار ارب روپے کا مقروض تھا اور موجودہ حکومت کے 4سال کے دوران تقریباً پچیس ہزار ارب روپے کا مقروض ہو چکا ہے قرضے لے کر زرمبادلہ کے ذخائر کو بلند ترین سطح پر شو کیا جا رہا ہے۔ آخر ان قرضوں کی ادائیگی کون کرے گا، ایسی صورتحال میں معیشت میں ترقی صرف اور صرف ایک سراب ہے جس سے عوام کو دھوکا دیا جا رہا ہے۔

پچھلے ماہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی سالانہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا کہ پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ اور تجارتی خسارہ تشویشناک انداز میں بڑھ رہا ہے، موجودہ مالی سال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 4.5ارب ڈالر تک بڑھ سکتا ہے، یہ تخمینہ شدہ خسارہ وزارت خزانہ کے 2017-18 کے اندازوں سے 5ارب ڈالر زیادہ ہے، اے ڈی بی کے مطابق بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی وجہ سے پاکستان کے پاس دو ہی راستے ہیں، یا تو روپے کی قدر میں تیزی سے کمی کی جائے یا بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید بیرونی قرضے لیے جائیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہماری معیشت کے لیے زہر قاتل کا درجہ رکھتا ہے اور جو ہم جی ڈی پی کی بڑھتی ہوئی شرح نمو کے شادیانے بجا رہے ہیں اس کو انتہائی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے بلکہ شرح نمو میں کمی کا بھی اندیشہ ہے۔

اس سے قبل انسٹیٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز نے بھی اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش کی تھی جس کے مطابق پاکستان کے قرضوں میں نہایت تیزی سے اضافہ ہوا ہے، 2016 بیرونی قرضے لینے کا ایک ریکارڈ سال تھا، جب پاکستان پر واجب الادا بیرونی قرضے 72.98 ارب ڈالر (7.4 کھرب روپے) تک پہنچ گئے۔

اس سال حکومت نے 7.9 ارب ڈالر اضافی قرضے لیے جب کہ مقامی بینکوں سے بھی 3.1 کھرب (30 ارب ڈالر)کے قرضے لیے گئے۔ پاکستان کے بیرونی اور مقامی قرضوں کا مجموعہ کیا جائے تو حکومت نے گزشتہ 3 سال کے دوران 55 ارب ڈالر کے قرضے لیے جن میں چین سے لیے گئے قرضے شامل نہیں۔ قرضوں کی حد کے قانون قرض کی حد کے ایکٹ کے تحت حکومت جی ڈی پی کا 60 فیصد سے زیادہ قرضے نہیں لے سکتی لیکن ہمارے قرضے 65 فیصد تک پہنچ گئے ہیں اور اقتصادی ماہرین کے مطابق آنیوالے سالوں میں ان میں بتدریج اضافہ کے امکانات ہیں۔

ملک کے مجموعی قرضوں اور واجبات کی ادائیگیاں 25 کھرب روپے تک پہنچ گئی ہیں جب کہ گزشتہ سال یہ 22.5 کھرب روپے تھیں۔ ان قرضوں کے لیے ہم اپنے موٹر ویز، ڈیمز، ایئرپورٹس اور دیگر قومی اثاثے قرضہ دینے والے اداروں کو گروی رکھواچکے ہیں جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔

نواز شریف اپنے پہلے دور حکومت میں ’’قرض اتارو، ملک سنوارو‘‘ کے نام پر ایک اسکیم لائے تھے جس پر ہر مرد، عورت اور بچوں نے ملک کے قرضے اتارنے کے لیے اپنے زیور اور عطیات دیے تاکہ ہم ملک کو قرضوں کی لعنت سے نجات دلا سکیں  لیکن اس اسکیم پر حاصل ہونے والی رقوم کا کوئی حساب نہیں دیا جاسکا جس سے لوگوں میں نہایت مایوسی ہوئی اور آج ملک پھر قرضوں کی دلدل میں بری طرح دھنس چکا ہے۔ 2011 میں ہر پاکستانی 46ہزارروپے، 2013میں 61ہزار روپے اور 2016 میں ایک لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہوچکا ہے۔

اب جب کہ اندرونی و بیرونی قرضہ بڑھ رہا ہے، تجارتی خسارے میں بھی اضافہ ہورہا ہے، کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ بھی تاریخی بلندی کو چھورہا ہے اور گردشی قرضے بھی انتہائی حدوں کو کراس کررہے ہیں تو پھر کیسے من چاہی شرح نمو حاصل کی جاسکے گی؟اس کے علاوہ خسارہ بڑھنے کی صورت میں ہمیں دوبارہ آئی ایم ایف کے سامنے جھولی پھیلانی پڑے گی جو معیشت کی مزید تباہی کاباعث ہوگا۔

ایک اندازے کے مطابق 60سال کے عرصہ کے دوران جتنے قرضے لیے گئے تقریباً اتنے ہی قرضے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی یکے بعد دیگرے 2جمہوری حکومتیں لے چکی ہیں اور ان قرضوں کی ادائیگی کی پہلی قسط دینے کا مرحلہ آئیگا تو امکان ہے کہ ہم پہلی قسط دینے کے قابل بھی نہیں ہونگے اور اگر قرضے کی ادائیگی کے لیے بھی قرضہ لینا پڑا تو پھر معیشت کا اللہ ہی حافظ ہے۔

آرمی چیف نے بہت ہی شائستہ انداز میں سلیقے سے حکومت کو پیغام دیا ہے کہ وہ معیشت کو ٹھیک کرے جو ملک کی سلامتی سے براہ راست  منسلک ہے ، فوج کا کام ملک کا دفاع کرنا ہے، اندرونی و بیرونی سیکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانا ہے جس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہوتی نظر بھی آرہی ہے اگرچہ کچھ چیلنجز بدستور درپیش ہیں لیکن معاملات مجموعی طور پر بہتری کی سمت جارہے ہیں، معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات کرنا فوج کا کام نہیں حکومت کا کام ہے، اگر حکومت ڈی جی آئی ایس پی آر کو معیشت کے حوالے سے بیانات دینے سے گریز کا مشورہ دے رہی ہے تو پھر اسے یہ بھی چاہیے کہ وہ معیشت کی بہتری کے لیے عملی اقدامات کرے، جو نشاندہی کی گئی ہے اس پر توجہ دے۔ خاص طور پر درآمدات میں کمی کی جائے۔

برآمدات بڑھانے کے لیے ترغیبات دی جائیں۔ قرضوں کی ادائیگی کے لیے سرمایے کا انتظام کچھ اس طرح سے کیا جائے کہ عام آدمی پر اس کا بوجھ نہ پڑے ۔ٹیکس کی وصولی  کا طریقہ کار آسان اور سادہ بنایا جائے ۔ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دینے میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کا پیچیدہ نظام ہے اگر اسے سہل بنا دیا جائے تو ٹیکس وصولی میں قابل ذکر اضافہ ہو سکتا ہے جس سے قرضہ اتارنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔

کوئی ادارہ اگر کسی خرابی کی نشاندہی کرتا ہے تو حکومت کو اس بات سے قطع نظر کہ یہ اس ادارے کا کام ہے یا نہیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنا  چاہیے ۔ قومی سلامتی اورملکی معیشت کے حوالے سے آرمی چیف کے مشاہدات پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے حکومت کواس پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے اور اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اقتصادی میدان میں  چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہئیں۔