counter easy hit

مسلم لیگ (ن) کی تنظیم سازی: احسن اقبال کو کونسی اہم ذمہ داری سونپ دی گئی؟ یقین کرنا مشکل ہو جائے گا

اسلام آباد (ویب ڈیسک) مسلم لیگ ن نے پارٹی تنظیم سازی کی ذمہ داری احسن اقبال کو سونپ دی، یہ فیصلہ اسلام آباد میں مسلم لیگ ن کےاجلاس میں کیا گیا۔ نواز شریف، شہباز شریف اور سینئر قیادت اجلاس میں موجود تھی۔ نجی ٹی وی نیوز چینل کے مطابق اسلام آباد میں پاکستان مسلم لیگ ن کا اہم اجلاس ہوا جس میں احسن اقبال نے پارٹی تنظیم سازی پر بریفنگ دی۔ اجلاس میں پارٹی کی تنظیم سازی فوری کرنے اور تمام خالی عہدے فوری طور پر پُر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس حوالے سے تین دن کے بعد احسن اقبال پھر رپورٹ پیش کریں گے۔ اس کے علاوہ 30 دسمبر کو پارٹی کے یوم تاسیس پر کنونشن بارے رائے بھی طلب کر لی گئی ہے جبکہ سوشل میڈیا ونگ کو دوبارہ سے فعال کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ قائمہ کمیٹی برائے ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی میں ن لیگ نہیں جائے گی۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ دیگر قائمہ کمیٹیوں کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت جاری ہے۔ نیب ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی آٹھویں مہلت کا آج آخری روز ہے۔ تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت جاری ہے۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کر رہے ہیں۔ فلیگ شپ انویسمنٹ ریفرنس میں فریقین آج حتمی دلائل مکمل کریں گے۔ نیب ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی آٹھویں مہلت آج ختم ہورہی ہے۔ 12 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے ریفرنس نمٹانے کے لیے مزید 5 ہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ آخری توسیع ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ اس کے بعد کوئی توسیع نہیں دی جائے گی، اگر اس مدت میں احتساب عدالت نے فیصلہ نہ کیا تو عدالت کے جج سے پوچھیں گے، 17 نومبر تک کیسوں کا فیصلہ نہ ہونے کی صورت میں عدالت اتوار کو بھی لگے گی۔ دوران سماعت فلیگ شپ ریفرنس میں جبل علی فری زون اتھارٹی سے متعلق نیب کی دستاویزات پر جواب دیتے ہوئے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جافزا دستاویزات قانونی شہادت کے مطابق تصدیق شدہ نہیں، دیکھنا ہوگا کیا ان دستاویزات کو شواہد کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ بیرون ملک سے آنے والی دستاویزات یا تو اصل یا پھرتصدیق شدہ ہوگی، جس ملک سے دستاویزات آئے گی اس ملک کی تصدیق بھی لازم ہے۔ دستاویز کی پھر پاکستانی اتھارٹی بھی تصدیق کرے گی۔ ’پاکستانی قونصل خانہ یا ڈپلومیٹک ایجنٹس اس بات کی تصدیق کرے گا، یہ طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا تو پھر وہ دستاویز ثابت نہیں ہوگی‘۔ انہوں نے کہا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای کی ملازمت سے متعلق دستاویز صرف ایک خط ہے، ہم کہتے ہیں یہ جعلی اور من گھڑت دستاویزات ہیں۔ ملزم نے شواہد سے متعلق شقوق پر ہی بات کرنا ہوتی ہے۔ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے ایک مخصوص مدت کے لیے ویزہ لیا یہ تسلیم کرتے ہیں، دستاویز کی حیثیت 161 کے بیان سے زیادہ کچھ نہیں۔ جج نے نیب پراسیکیوٹر سے سوال کیا کہ کیا آپ نے تصدیق کے لیے کوشش کی تھی؟ جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم نے ایم ایل اے بھیجا تھا کوئی جواب ہی نہیں آیا۔ حارث نے کہا کہ میرا جاننا یہ ہے کہ انہوں نے کوئی ایم ایل اے نہیں بھیجا، نواز شریف کی تنخواہ سے متعلق دستاویزات اسکرین شاٹس ہیں۔ یہ اسکرین شاٹس والی دستاویزات بھی تصدیق شدہ نہیں، ان سکرین شاٹس والی دستاویز پر تو کوئی مہر نہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ کہتے ہیں نواز شریف کا تنخواہ لینا بہت بڑا مسئلہ ہے، تنخواہ سے متعلق کسی بینک کی دستاویزات پیش نہیں کی گئیں۔ جے آئی ٹی نے جن دستاویزات پر انحصار کیا اس پر نواز شریف کا نام نہیں۔ جے آئی ٹی ممبران یہاں سے گئے اس کام کے لیے اور وہاں کچھ نہیں کیا۔ کیا انہیں کسی نے وضع کیا تھا کہ ایسا نہ کریں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کا عربی میں نام صرف محمد لکھا تھا۔ جج نے کہا کہ عرب ممالک میں تو ویسے بھی سب کو اسی نام سے پکار رہے ہوتے ہیں۔وکیل نے کہا کہ پیشی کے وقت نواز شریف سے کیپٹل ایف زیڈ ای کی ملکیت کا نہیں پوچھا گیا، نواز شریف نے متفرق درخواستوں میں یو اے ای کا ویزہ ظاہر کر رکھا تھا۔ میں صرف دکھانا چاہتا ہوں کہ ہم نے کچھ چھپا نہیں رکھا۔ گزشتہ سماعت میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا تھا کہ صادق اور امین والے معاملے پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ جس بنیاد پر نواز شریف کو نااہل کیا اس کا عدالت سے تعلق نہیں، سپریم کورٹ نے نااہل کیا اور کرمنل کارروائی کا حکم دیا۔ خواجہ حارث نے کہا تھا کہ فلیگ شپ کی فرد جرم میں کہا گیا کہ بیٹوں کے نام پر بے نامی جائیداد بنائی، فلیگ شپ سرمایہ کاری کے وقت حسن اور حسین نواز بالغ تھے۔ فرد جرم میں کہا گیا حسن نواز 1989 سے 1994 تک زیر کفالت تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ لکھا ہے 1995 سے 1999 تک حسن نواز کے ذرائع آمدن نہیں تھے۔ فرد جرم بھی نہیں کہہ رہی کہ حسن نواز 1994 کے بعد والد کے زیر کفالت تھے۔ کمپنیوں کے قیام اور نواز شریف کے منسلک ہونے میں 5 سال کا فرق ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ شواہد میں ایسا کچھ نہیں کہ نواز شریف کا تعلق ملازمت سے زیادہ ہو، صرف تفتیشی افسر نے کہا کہ نواز شریف مالک تھے۔ خواجہ حارث نے فلیگ شپ ریفرنس کے 3 نکات پر العزیزیہ ریفرنس میں بھی اصرار کیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ بے نامی دار، جے آی ٹی اور ایم ایل اے سے متعلق دلائل وہی رہیں گے۔ عدالت العزیزیہ ریفرنس میں دیے گئے دلائل کو فلیگ شپ کا حصہ بنالے۔ سماعت کے دوران حسن نواز کی برطانیہ میں جائیداد سے متعلق نئی دستاویزات پیش کی گئی تھیں۔ خواجہ حارث نے 3 کمپنیوں کی دستاویزات عدالت کو دکھائیں۔ نواز شریف نے دستاویزات کے لیے برطانوی لینڈ رجسٹری کو درخواست دی تھی۔