counter easy hit

امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ

War between America and Iranدبئی: امریکا کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں حالیہ کشیدگی میں اضافے کے بعد ایئر سیفٹی کی وارننگ کے باوجود متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی ایئرلائنز نے معمول کے مطابق اپنے آپریشنز جاری رکھے ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز امریکی سفارت کاروں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ خلیج فارس سے گزرنے والے مسافر طیارے خطے میں کشیدگی میں اضافے کی وجہ سے ایرانی فوج کی جانب سے ‘غلطی یا غلط پہچان کی صورت میں نشانہ بنائے جا سکتے ہیں۔ اتحاد ایئرویز، الامارات اور فلائی دبئی نے اتوار کے روز بتایا کہ انہوں نے اپنی پرواز کے منصوبوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی جبکہ وہ صورتحال پر کڑی نظر رکھ رہے ہیں۔الامارات کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمارے فلائیٹ آپریشنز میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے، ہم متعلقہ متحدہ عرب امارات اور عالمی حکام سے رابطے میں ہیں اور صورتحال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ایئر لائن نے یقین دہانی کرائی کہ ان کے آپریشنز کی حفاظت سب سے اولین ترجیح ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ اتحاد کا کہنا تھا کہ وہ بھی یو اے ای کے جنرل سول ایوی ایشن اتھارٹی اور عالمی سطح پر ایئر نیوی گیشن سروس فراہم کرنے والے ادارے سے رابطے میں ہیں۔ فلائی دبئی کے ترجمان نے کہا کہ پائلٹ بین الاقوامی سطح پر منظور شدہ راستوں پر جہاز اڑا رہے ہیں، ہمیں خدشات کے بارے میں علم ہے اور ہم صورتحال کا جائزہ لے کر ہمارے ریگولیٹر سے رابطہ جاری رکھیں گے۔سعودی عرب کے حکام کی جانب سے یہ اعلان ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب گزشتہ ہفتے ملک کی تیل کمپنی پر ڈرون حملے اور متحدہ عرب امارات کے ساحل پر تیل بردار جہازوں کو تخریب کاری کا نشانہ بنایا گیا تھا اور ان حملوں کو ایران اور امریکا کے درمیان جاری کشیدگی کی کڑی قرار دیا جا رہا ہے۔

خدشات میں کہا گیا کہ ایران کا مسافر طیارے کو نشانہ کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن کشیدگی کی صورتحال میں متعدد دور تک ہدف کا نشانہ بنانے والے اور جدید اینٹی ایئرکرافٹ کی صلاحیت رکھنے والے ہتھیاروں کی موجودگی میں غلطی یا غلط شناخت کرکے مسافر طیارے پر حملے ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ طیاروں کے نیوی گیشن آلات کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس میں بغیر اطلاع دیے رابطہ منقطع کیا جا سکتا ہے۔یاد رہے کہ ایران جو کہ کئی دہائیوں سے امریکی پابندیوں میں خود کو سنبھالے ہوئے ہے۔ اب امریکہ ایران سے پنگا کرنے کے لئے اس کی سرحدوں پر اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ آن پہنچا ہے۔ بڑے بڑے جنگی بحری بیڑوں نےایران کی سمندری حدود کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ عراق میں موجود امریکی فوجی اڈوں پر B52بمبار بھی آن پہنچے ہیں۔ ادھر ٹرمپ نے اپنی ایک ٹوئٹ کے ذریعے ایران کو دھمکی دی ہے کہ اگر امریکہ سے ٹکرلی تو ایران کو صفحہ ٔہستی سے مٹا دیا جائے گا۔ امریکہ، ایران اور اس خطے میں کیا چاہتا ہے کہ ایسی تباہ کن بیان بازی کررہا ہےیوں تو ٹرمپ کی ایسی ہی بڑھک بازی شمالی کوریا کے ساتھ امریکی کشیدگی کے دنوں میں بھی دیکھ چکے ہیں اسے بھی ٹرمپ نے کہا تھا کہ اس کرہ ارض سے اس کا نام و نشاں مٹادیا جائے گا۔ ایران کی صورتحال شمالی کوریا سے کافی مختلف ہے۔ ایران جغرافیائی طور پر چاروں طرف سے کئی امریکی پٹھو حکومتوں میں گھرا ہوا ہے ۔ اس طرف عراق میں امریکہ براہ راست بیٹھا ہوا ہے۔