counter easy hit

کھلی بے حیائی خاموشی بھی تشویشناک ہے

سوچتا رہا لکھوں یا نہ لکھوں لیکن ابھی میرا دل کا ضمیر ابھی زندہ ہے، اکثر دیکھ رہا ہوں کہ انڈین کلچر ہمارے ملک میں میڈیا کے زریعے کیا فروغ دے رہا ہے میڈیا دُشمن ہے یا دوست چلتا ہو ں اب حالات کی طرف (ہم)چینل کے ڈرامے :پاکزہ:میں طلاق کے بعد بیٹی کا بہانہ بناکر طلاق کو چھپایا گیااور سابق خاوند کے ساتھ رہائش رکھی جبکہ بیٹی چھوٹی نہیں شادی کے قابل عمر کی ہے۔ اے پلس کے ڈرامے ؛خُدا دیکھ رہا ہے؛میں طلاق کے بعد شوہر منکر ہو جاتا ہے اور مولوی صاحب سے جعلی فتوی لے کر بیوی کو زبردستی اپنے پاس روکے رکھتا ہے جب تک بیوی را ضی نہیں ہو جاتی۔ اے آر وائی کے ڈرامے ؛انابیہ :میں شوہر طلاق کے بعدمنکر ہو جاتا ہے جبکہ والدہ اور بہن تھیں بیوی والدین کے گھر آجاتی ہے۔

لڑکی خلع کا کیس دائرکر دیتی ہے اور فیصلہ ہونے کے باوجود صرف اپنی بہن کا گھر بسانے کی خاطراسی شخص کے پاس دوبارہ جانے کو تیار ہو جاتی ہے ہم چینل کے ڈرامے ؛زرا یادکر؛ میں طلاق کے بعد حلالہ کے لیے لڑکی خودشوہر تلاش کر رہی ہے تا کہ دوسری شادی کر کے اس سے طلاق لے کر پہلے والے شوہر سے دوبارہ شادی کر سکے ۔(جبکہ با قاعدہ پلاننگ کر کے حلالہ کرنا نا جائزہ ہے اسلامی حکم یہ ہے کہ اگر طلاق دے دی جائے تو لڑکی دوسرا نکاح کر سکتی ہیں اور اگرکسی وجہ سے وہ دوسری شادی ختم ہو جائے تا اگروہ چاہے تو پہلے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے مگر پلان کر کے نہیں) جیو کے ڈرامے؛جورو کے غلام؛میں ایک بیٹے نے باپ کی بات مانتے ہوئے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور پھر ایک شخص کورقم دے کر اپنی بیوی سے نکاح کروایاتاکہ دوسرے دن وہ طلاق دے دے اور یہ خود اس سے نکاح کر سکے۔ ہم ٹی وی کے ڈرامے؛من

مائل؛میں لڑکی طلاق کے بعد اپنے گھر جانے کی بجائے اپنے چچا کے گھران کے بیٹے کے ساتھ رہتی ہے جبکہ چچا اور چچی گھر پر نہیں ہیں وہ بعد میں اطلاع سن کر آتے ہیں ہم ٹی وی کے ڈرامے ؛تمھارے سوا میں؛لڑکے کے دوست کی بیوی کو کینسر ہوتا ہے اس کے پاس علاج کے لیے رقم نہیںتو پلاننگ کے تحت لڑکا اپنے دوست سے طلاق دلوا کر خود نکاح کر لیتا ہے اور آفس میں لون کے لیے اپلائی کردیتا ہے اس دوران وہ لڑکیاپنے سابقہ شوہر کے ساتھ ہی بغیر عدت گزارے رہتی ہے اور اس کا پورا خیال رکھتی ہے سب جانتے ہیں کہ ٹی وی عوام الناس کی رائے بنانے کا ایک موثر ہتھیار ہے ۔اورپرائم ٹائم میں پیش کیے جانے والے ڈرامے اور ٹاک شوز کو عوام کی ایک بڑی تعداد دیکھتی ہے خاص طور پر پاکستان کی 50فیصد سے زائد آبادی دیہاتوں میں موجود ہے اور دیہات میں ٹی وی تفریح کا بڑا زریعہ سمجھا جاتا ہے۔

ایسے میں پوری پلاننگ اور تھیم کے تحت ڈراموں کے زریعے اسلامی احکامات کو توڑ مڑور کر پیش کرنا،اس طرح کے سوالات اٹھانا اور لوگوں میں کنفیوژن پیدا کرنے کا مقصد عوام کواسلام سے دور کرنااور اسلامی تعلیمات پر پکے بھروسے کو متزلزل کرناہے،کیا وزارت اطلاعات و نشریات کا کوئی بورڈ ایسانہیں؟جو فلم یا ڈرامے کو پکچرائز کرنے سے قبل چیک کرے اور اس کی منظوری دے؟کیا حکومت نے ایسی کوئی ایڈوائزری کمیٹی تشکیل نہیں دی جوان مالکان کو ایڈوائز دے؟حیرت کی بات تو یہ ہے کہ شرعی احکامات کی اتنی کھلم کھلا خلاف ورزی پیمرا کے علم میں کیوں نہیں آتی؟اس پر کوئی رکاوٹ کیوں نہیں؟کیا کوئی مانیٹرنگ کمیٹی نہیں جو اسلام اور پاکستان کے خلاف پیش کی جانے والی چیزوں کا نوٹس لے؟کیاہمارے چینلز اور ان کے مالکان اپنی آزاد پالیسی رکھتے ہیں کہ جو چاہے دکھا دے کو ئی ان کو چیک کرنے والا نہیں ہیں ؟با قائدہ نام لے کر بتاتا ہوں میڈیا پر اوپو فون کے اشتہار میں قمیض اتری لڑکیاںاور فیراینڈلولی کے اشتہار میں شلوار اتری لڑکیوں کی نمائش اور اس پر ہماری شرمناک خاموشی مستقبل میں میڈیا پر کھلی فحاشی کا بدترین منظر پیش کر رہی ہے ٹی وی ڈراموںمیں بے حیائی عروج پر ہے اور صاف لگتا ہے کہ یہ سب باقائدہ ایک منظم سازش کے تحت ھو رہا ہے۔

ڈراموں میں دیور کا بھابھی کے ساتھ چکر،بیوی کے پہلے بوائے فرینڈ کے ساتھ تعلقات ،شوہر کا بیوی کو پہلی محبت پانے میں مدد فراہم کرنا،بھائی کا بہن کی مدد سے لڑکی پھنسانا،یہاں تک کے ہم جنس پرستی کے موضوع پر بھی ڈرامے بن رہے ہیں جس کی آنے والے وقتوں میں بڑے ہی بھیانک نتائج نکلے گے۔ان چینلز کو اب فیملی چینلز کہنا مناسب نہیں رہامذہبی طبقوں کی اس کھلی بے حیائی پے خاموشی بھی تشویشناک ہے ۔پورے ملک میں (انصار عباسی اور اوریا مقبول)صرف دو ہی مجاہد آپ کو اس کھلی بے حیائی کے خلاف آواز اٹھاتے نظر آئیں گے باقی سب ان دونوں کو مجاہدوں کو گالیاں دینے والے ہی ملے گے ۔ہمیں بظاہر چھوٹے دیکھائی دینے والے مگر بہت ہی حساس مسلئہ کی طرف غور کر نا ہو گاکل پچھتانے سے بہتر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج آواز اٹھائو۔
بڑھو۔۔سوچو
اپنے لیے ۔۔۔اپنے وطن کے لیے
اپنے بچوں کے لیے۔۔۔اپنی آخرت کے لیے
آئیے عہدکریں۔۔۔کہ ہم نے اپنے پیارے وطن پاکستان کے دُشمنوں کے اس بے حیائی پھیلانے والے عناصر کو ختم کرناہیں۔۔۔۔آپ سب کی دُعاوں کا طلب گار۔حاجی وسیم اسلم۔
ستاروں کو بسانے کی تمنا۔۔۔۔!!!!
ذمین ویران کرتی جا رہی ہے

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website