counter easy hit

وی آئی پی کلچر

Protocol

Protocol

ایک بار نہیں ، سینکڑوں بار ایسے واقعات سامنے آئے ہیں ،جن کے بعد پاکستان میں موجود اور نافذ العمل وی آئی پی کلچر پر احتجاج کیا جاتا رہا ہے، لیکن حکمران طبقہ ہے کہ یہ احتجاج اس پر گراں ہی نہیں گزرتے۔ اس طبقہ کا مزاج ایسا بن گیا ہے کہ وہ ٹس سے مس ہونے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اس حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والا ہر شخص صدر پاکستان یا وزیراعظم جیسے پروٹوکول کا خواہش مند ہوتا ہے، حالانکہ ان دونوں حضرات کو بھی کسی خصوصی تحفظ ، پروٹوکول یا ہینڈلنگ کی ضرورت نہیں ہونا چاہئے۔ بدھ کے روز کراچی میں لیاری کے رہائشی فیصل کی دس ماہ کی بچی بسمہ بظاہر اس لئے موت کی آغوش میں چلی گئی کہ اس کے والد اسے بر وقت اسپتال نہیں پہنچا سکے۔ فیصل کے اسپتال نہ پہنچنے کی وجہ یہ تھی کہ اسپتال میں وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول آئے ہوئے تھے ۔یہ دونوں حضرات اسپتال میں ٹراما سینٹر کا افتتاح کرنے آئے تھے جسے مرحومہ بے نظیر بھٹو کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ پولیس نے پورے اسپتال کو گھیرے میں لیا ہوا تھا ۔ کسی کو اسپتال میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ فیصل اپنی بچی کو گود میں لئے اسپتال میں داخل ہونے کی کوشش ہی کرتا رہا ، کبھی ادھر کبھی ادھر، اسی دوران بچی نے جان دے دی۔
بچی کی موت کی خبر جب ذرائع ابلاغ نے نشر کی تو اظہار ملامت اور ندامت کی بجائے پیپلز پارٹی کے بعض وزراء نے ایسے بیانات دئے جس پر شرم بھی آتی ہے اور ان کی سوچ پر افسوس بھی ہوتا ہے۔ صوبائی وزیر نثار کھوڑو فرماتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو بلاول کی زندگی زیادہ پیاری ہے ( اس لئے حفاظتی انتظامات ضروری تھے)۔ صوبائی وزیر صحت جام مہتاب ڈہر کا ارشاد ہے کہ موت تو ہر شخص کو ایک نہ ایک روز آنا ہے۔ ( ان کے خیال میں بچی کا اس طرح مر جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے) ۔ وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کا فرمان امروز تھا کہ بچی کی موت کو سیاسی مسلہ نہ بنایا جائے۔ یہ تو آمد و رفت کی بات ہے، حکمران طبقے کے لوگ تو چاہتے ہیں کہ اس ملک کی ہر چیز صرف ان کے لئے ہی ہو،ان کی دسترس میں ہو اور ان کے ہی تصرف میں ہو ۔ وہ جمہوریت کی مالا جپتے رہیں اور عوام گردنیں ہلاتے رہیں یعنی غلام بنے رہیں۔ اس ملک میں عام آدمی کی زندگی غلاموں جیسی ہی تو ہے۔ یہ اسمبلیاں، یہ جمہوریت، یہ قوانین ، عام لوگوں پر حکمرانی کرنے والوں کو کبھی پابند نہیں کر سکتے کہ وہ حٖفاظتی حصار سے باہر نکل کر دیکھیں کہ خلق خدا انہیں غائبانہ کیا کہتی ہے۔ بلاول کے لئے موقع تھا کہ وہ اس جمہوریت پر عمل پیرا ہوتے جو برطانیہ میں موجود ہے جہاں انہوں نے تعلیم حاصل کی ہے، لیکن یہ ہٹو بچو کی سیاست کرنے و الوں نے انہیں بھی اپنے ہی رنگ میں رنگ دیا ہے۔
پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں حکمران طبقے نے یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ انہیں اپنی آمد و رفت کے دوران سڑکیں ٹریفک سے خالی چاہئیں۔ اگر وہ کسی ایسے مقام پر گئے ہیں جہاں عوام موجود ہوتے ہیں تو انہیں وہ مقام عوام سے خالی چاہئے۔ ان کے چاروں طرف پولیس والے ہوں اور ایسے افراد ہوں ،جن سے انہیں اپنی جان کو بظاہر خطرہ نہ ہو اور کوئی ان سے سوال نہ کرے۔ یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ مصر کے صدر انور السادات کو کن لوگوں نے قتل کیا تھا۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو کس نے قتل کر دیا تھا۔ بسا اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ ان حکمرانوں پر خوف طاری ہے اور یہ وزراء اور سیاسی رہنماء عوام کا سامنا نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ آصف زرداری کے منہ بولے بھائی مظفر ٹپی ایک دفعہ حیدرآباد کے لیاقت میڈیکل اسپتال آئے تھے تو جب تک وہ اسپتال میں موجود رہے ، اسپتال میں عام آدمی کے داخلے پر پابندی لگادی گئی تھی۔
کوئی بھی وزیر اعلیٰ ہو جب ہائی وے سے گزرتا ہے تو پولیس اس کی آمد سے قبل ہی ہائی وے پر چلنے والے ٹریفک کو سڑک کے کنارے روک د یتی ہے جب تک پولیس کا وی آئی پی گزر نہ جائے۔ اسی طرح فریال تالپور جو حکومت سندھ کی کرتا دھرتا قرار دی جاتی تھیں، ہائی وے سے جب اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ گزرتی ہیں تو سڑک ٹریفک کے لئے بند کر دی جاتی ہے۔ ان کے پروٹوکول میں فائر برگیڈ کی گاڑی، ایمبولنس کے علاوہ دو درجن سے زیاد پولیس کی موبائل ہوتی ہیں، جن پر مسلح پولیس والے سوارہوتے ہیں۔ 2008 ء سے قبل یہی فریال تالپور اپنی تنہا کار میں سفر کیا کرتی تھیں۔ اب عالم یہ ہے کہ پولیس کی دو درجن گاڑیاں بھی ان کے خوف کا علاج نہیں کر پاتی ہیں چہ جائیکہ ان میں احساس تحفظ پیدا ہو سکے ۔ جنرل مشرف کے دور میں صوبائی حکومت کے ایک وزیر ہر ضلع کے پولیس سربراہ سے صرف ایک ہی معصوم خواہش کا اظہار کیا کرتے تھے کہ جب وہ سانگھڑ جانے کے لئے ان کے ضلع سے گزریں تو انہیں پولیس کی وہ گاڑی فراہم کر دی جائے جس میں سائرن کی سہولت موجود ہوتی ہے۔ یہ ہٹو بچو کا نمونہ د کھانے والے وہ وزیر آج گمنا م زندگی گزار رہے ہیں ۔ ایسا مزاج بن گیا ہے کہ سب ہی کو پروٹوکول چاہئے۔ صوبائی وزیر صحت جام مہتاب ڈہر جب کبھی کسی اسپتال کا دورہ کرتے ہیں تو اسپتال میں علاج کی غرض سے آنے والے مر یضوں کے داخلے پر بھی پابندی عائد ہو جاتی ہے۔
عوام اس قسم کی صورت حال سے اس وقت تک دوچار رہیں گے جب تک اس ملک میں کاسہ لیسوں کی نام نہاد جمہوریت کو تبدیل نہیں کیا جاتا۔ یہ جمہوریت خوشامدیوں کی جمہوریت ہے، یہ ان لوگوں کی جمہوریت ہے جو پیسے رکھتے ہیں۔ لاہور اور لودھراں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کو ہی دیکھ لیں۔ امیدواروں نے جس بے دریغ طور پر بری طرح پیسہ بہایا ہے، کیا اسے جمہوریت قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیا ایسی جمہوریت سے عوام کبھی مستفید ہو سکتے ہیں۔ یہ وہ جمہوریت ہے جس کی وجہ سے آقا اپنے غلاموں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتے ہیں۔ اور ان غلاموں میں بھی تفریق پیدا کرتے ہیں ۔ عوام اپنی نفرت کا کھلے بندوں اظہار اس لئے نہیں کر پاتے کہ جمہوریت کے ان چیمپئن حضرات کو پولیس تحفظ فراہم کرتی ہے۔ اس تماش گاہ میں حکمران طبقہ اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ہے۔ ہم لوگ کس منہ سے کس جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔ یہ جمہوریت ہمیں راس نہیں آئے گی۔ یہ جمہوریت ہمیں اندھی سرنگ میں دھکیل چکی ہے۔ ہمارے لئے بہتر یہ ہی ہے کہ ہم اس جمہوریت کو ایسی جمہوریت میں تبدیل کریں جو جمہوریت کی روح کا حقیقی تقاضہ ہے نہ کہ وہ جمہوریت جس میں پیسہ نہ ہونے کی صورت میں جمہوریت کا نام لینا بھی دشوار نظر آتا ہے۔