counter easy hit

بلا عنوان

Lies

Lies

تحریر: ابن نیاز
بڑے دنوں سے سوچ رہا تھا کہ کچھ لکھوں لیکن دماغ راغب نہیں ہو رہا تھا۔ ایک دفعہ جب ذہن بنا تو سمجھ نہ آئی کہ کس کو تختہء مشق بنایا جائے۔ بہت سوچا کوئی ایسا نہ ملا جو میرے دل پر راج کر سکتا۔ کہتے ہیں کہ جب ساری سوچیں جواب دے جائیں تو پھر حالات کے دھارے کا رخ دیکھنا چاہیے۔ میں نے اپنی اوقات دیکھی تو ایک ہی بات کا پتہ چلا کہ میری اوقات کچھ نہیں سوائے اسکے کہ ہر کوئی برا کہے اور ہر کوئی میری پیٹھ پیچھے میری برائی کرے۔ جب یہ کچھ دکھائی دیا تو ایک آئیڈیا بھی سوجھائی دیا۔ وہ یہ تھا کہ آج خود کو ظاہر کر دو۔ ظاہر کیا کرنا جیسا ہوں ویسا ہی لکھوں گا نہ۔ لیکن اس میں بھی ایک بات ہو گی کہ ساری خود ستائیشی ہی نظر آئے گی۔ اسکے لیے میں ایڈوانس میں معذرت کروں گا۔

میں اپنے بارے میں اگر یہ کہوں کہ میں منہ پھٹ ہوں اور یہ نہیں دیکھتا کہ میرے سامنے کون کھڑا ہے، اسکی کوئی بات بری لگے تو 90 فیصد اسکے منہ پر کہہ دیتا ہوں کہ یہ بات ٹھیک نہیں کی۔ میں شاید یہ واحد موقع ہوتا ہے کہ نتائج کے بارے میں کبھی نہیں سوچتا۔ ورنہ میری یہ بھی ایک عادت ہے کہ کوئی بھی بات کرنے سے پہلے ہمیشہ مستقبل میں ہونے والے نتائج پر غور ضرور کرتا ہوں، چاہے وہ اسی طرح پیش آئیں یا نہ آئیں۔ اور یہی بات میں ہمیشہ اپنے بھائیوں کو اور اپنے جاننے والوں کو بھی سمجھاتا ہوں کہ جب بھی کوئی بات کرو یا کوئی فیصلہ کرو تو کم از کم ایک بار یہ ضرور دیکھ لیا کرو کہ اس کے مستقبل میں کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔

اس طرح منہ پھاڑ کر بولنے کے بعد جب بعد میں احساس ہوتا ہے کہ اس پورے مسلے میں غلطی میری اپنی بھی تھی تو کوشش ہوتی ہے کہ جیسے ماحول میں بات کی تھی اسی قسم کے ماحول میں معذرت بھی کر لوں۔ بے شک اس سے میری عزت نفس بری طرح مجروح ہوتی ہے کہ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ پہلے یہ کام کیا ہی کیوں تھا کہ اب معافی مانگنی پڑی۔ لیکن میرا ضمیر مطمئن ہو جاتا ہے۔ بچپن میں ایک واقعہ پڑھا تھا جسکا عنوان تھا سانچ کو آنچ نہیں،لیکن آج کہ اس دور میں جو سچ بولتا ہے وہ ہی کنڈا کھولتا ہے۔ سچ بولنے والے کو زیادہ تر رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بے شک اللہ پاک کے ہاں اسکا درجہ بہت بلند ہے لیکن دنیا میں شاید آج کل کے دور میں سچ کو کڑو ا ہی مانا گیا ہے اور درست مانا گیا ہے۔ یہ بات لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح کے سچ بولنے سے مجھے اکثر نقصان اٹھانا پڑا۔ ایک مرتبہ نوکری کو خیرآباد کہا۔ ایک دفعہ تھانے جاتے جاتے بچا، ارے ارے کسی جرم میں نہیں بلکہ کسی کی طرف داری کرنے پر۔

ایک اور مزے کی عادت جو میں باوجود کوشش کے نہ چھوڑ پایا وہ ہے جھوٹ بولنے کی عادت۔ جتنا جھوٹ ایک دن میں میں بولتا ہوں، شاید ہی کوئی بول پائے۔ یہ اور بات کہ جھوٹ بولنے کا بھی فن آنا چاہیے۔ اور شاید مجھے آتا ہے۔ کیونکہ بہت کم، بہت ہی کم میرے جھوٹ کو کئی پکڑ پایا ہے۔ جھوٹ بولتے ہوئے کہانی اسطرح بیان کرتا ہوں کہ سننے والا بھرپور یقین کر لیتا ہے۔ میں نے بھر پور کوشش کی کہ کسی بھی طرح اپنی اس بری عادت سے چھٹکارا پا لوں لیکن ہنوز ناکامی ہی مقدر میں ہے۔ میری کوشش پھر بھی جاری ہے۔ کبھی نہ کبھی تو کامیابی میرے قدم چومے گی۔

کام چوری بھی میرا دھرم ہے۔ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ اپنے پورا دن محنت کریں اور اس دن کے بدلے ملنے والے رزق کو حلا ل کر کے کھائیں، لیکن میں ٹھہرا سخت کام چور۔ ایک تو کام تو ٹالنا اور ٹالتے جانا۔ اور جب کوئی بہانہ کارگر نہ ہو تو پھر پانچ منٹ کا کام گھنٹے میں نبٹانا۔ اور پھر یہ سوچنا کہ آج بہت کام کر لیا اور حلال کر لیا۔ کہا گیا ہے کہ اگر حرام کا ایک لقمہ پیٹ میں چلا جائے تو چالیس دن تک اسکی کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی یا کوئی دعا قبول نہیں ہوتی۔ تو پھر میں کیسے اللہ سے یہ شکوہ کروں کہ میری کوئی دعا قبول نہیں ہوتی۔ اور سونے پہ سہاگہ کہ میری اتنی بڑی ہڈ حرامی کے باوجود اللہ کا بے پایاں کرم اور فضل مجھ پر ہر دم رہتا ہے اور پھر میری گستاخیاں تو دیکھیے کہ اسکا شکرادا کرنے میں بھی کنجوسی برتتا ہوں۔ اس پاک ذات کے احسانات کی فہرست اتنی بڑی ہے کہ اگر ایک سیکنڈ میں ہزاروں مرتبہ گن سکیں تو تمام عمر بھی کم ہو گی اور اس ذات کے احسانات ختم نہ ہوں گے۔ اور ہمیں ان احسانات کے بدلے کرنا کیا ہوتا ہے، صرف ایک بار الحمد اللہ ہی تو کہنا ہوتا ہے اور وہ بھی ہم نہیں کہہ سکتے۔ پانی پیا ، کہہ دیں الحمد اللہ۔ یا اللہ تیرا شکرہے۔ کھڑے تھے، تھک گئے، کرسی پر بیٹھے، الحمد اللہ۔ لیٹ گئے، الحمد اللہ۔ کوئی بھی کام کیا تو یا اللہ تیرا شکر ہے، کہنے میں کتنا وقت لگتا ہے۔ لیکن ہم ٹھہرے ازلی نا شکرے۔

آپ میں سے کنجوس تو بہت لوگوں نے دیکھے ہوں گے، لیکن مہا کنجوس دیکھنا ہو تو مجھ سے مل لے۔ لوگوں کے در پر فقیر آتے ہیں، بھکاری آتے ہیں ، اللہ کے نام پر مانگتے ہیں اور لوگ سینکڑوں ، ہزاروں روپے بنا سوچے سمجھے صرف اپنی عاقبت سنوارنے کے لیے انھیں دے دیتے ہیں۔ انھیں علم ہوتا ہے کہ یہ صرف دعا ہی دے سکتیہیں ، باقی اجر دینے والا تو اللہ ہے۔ اور اجر کب ملے گا یہ بھی علم نہیں۔ لیکن پھر بھی بنا سوچے دیے جا رہے ہیں۔دوسری طرف میں ہوں جس کے دروازے پر کبھی کوئی بھکاری آجائے تو پہلے تو معاف کرو بابا کی آواز لگا دیتا ہوں۔ یا اگر کچھ دینے کو دل کرے تو کنجوس تو پھر بھی 5، 10 روپے دے ہی دیتے ہوں گے، میں ایک یا دو روپے کا سکہ دیتا ہوں۔ وہ بھی بڑی حقارت سے دیکھتے ہیں۔سکے کو نہیں، مجھے کہ لوگ تو کنجوس ہو کر بھی 5، 10 روپے دیتے ہیں یہ تو کسی اور دنیا کی مخلوق نظر آتی ہے کہ ابھی تک ایک اور دو روپے کے سکے میں دعائوں کو تول رہا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس میری سخاوت دیکھئے فضول میں اتنا خرچ کر لیتا ہوں کہ مہینے کی 20 تاریخ کے بعد یار دوستوں سے ادھار مانگتا پھرتا ہوں۔ اور پھر انکو اپنی شکل اگلے 4، 5 ماہ تک نہیں دکھاتا، مبادا کہ کہیں چوک میں پکڑ کر دھنائی کر لیں اور جیب تک کاٹ لیں۔ اس پر بھی انکو ہی رسوائی ہو گی، میرا تو کچھ نہیں بگڑے گا۔ کیوں کہ جیب میں کچھ ہو گا تو انکو کچھ ملے گا۔
یار دوست یا آفس والے جب بھی کہتے ہیں کہ آج میں انھیں کھانا کھلائوں تو میری ایسی جان نکلتی ہے جیسے جیسے۔۔۔ بس سمجھ لیں آپ۔ تو پھر یہ ہوتا ہے کہ میرے پاس بہانے گھڑے گھڑائے تیار ہوتے ہیں۔ اور بعض اوقات تو ایسا ہو جاتا ہے کہ بجائے اسکے کہ میں انھیں کھانا کھلائوں، الٹا انھیں مجھے خرچے کے لیے رقم دینا پڑ جاتی ہے کہ میں نے دو دن سے کچھ پورے طریقے سے نہیں کھایا ہوتا۔ بس ایک عدد روٹی اور ایک کپ چائے پر پورا دن گزرتا ہے، دوپہر کا کھانا نہیں کھاتا بلکہ پانی پی پی کر پیٹ کی پوجا کراتا ہوں۔ رات کے کھانے میں بھی ایک کپ قہوہ کے ساتھ ایک نان نوش ہوتا ہے۔ تو یہ باتیں سن کر میرے دوستوں کو مجھ پر رحم کیوں نہیں آئے گا۔

ایک گانا کبھی سنا تھا اور آج کل بھی اکثر اپنے لیے گنگناتا رہتا ہوں۔ مطلبی ہیں لوگ یہاں پر، مطلبی زمانہ۔۔۔۔۔ اپنے لیے اسلیے گنگنا تا ہوں کہ مجھ سے زیادہ خود غرض کبھی کسی نے نہ دیکھا ہو گا۔میں ہمیشہ دوست بناتا ہوں اور بہت بناتا ہوں۔ مجھ سے ذرا ہنس کر کوئی بات کر لے، سمجھ لیں کہ جو ہنس گیا ، وہ پھنس گیا۔ تو اس ہنسے والے کو پھر وہ مکھن لگاتا ہوں کہ وہ میری چکنی چپڑی باتوں میں ایسا آتا ہے کہ میری دوستی پر فخر کرتا ہے۔ لیکن اس کو یہ نہیں علم ہوتا کہ اس نے کس بلا کو اپنے گلے لگا لیا ہے۔ کیونکہ شروع کے چند دن تو بات صرف ہیلو ہائے تک رہتی ہے۔ اور جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ اب کچھ بات بن سکتی ہے اور اس بندے سے کوئی نہ کوئی کام نکل سکتا ہے تو پھر اپنا کام نکالتا ہوں۔ اور اگر بدلے میں وہ کسی کام کا کہہ دے تو جھوٹ بولناتو میرا ایک فن ہے۔ اسکو وہ گولی دیتا ہوں، وہ پھرکی کراتا ہوں کہ مجھ سے دوبارہ کسی کام کا کہنے کے لیے ایک ہزار بار سوچتا ہے۔ البتہ میرے ہر کام کو بسم اللہ کہنے کو ہر دم تیار رہتا ہے۔ جب دوستوں سے سمجھتا ہوں کہ اب یہ کام کہ نہیں رہے تو پھر آہستہ آہستہ ان سے دوستی کم ہوتی جاتی ہے اور ایک دن میں انکے لیے گم ہو جاتا ہوں۔
صرف ایک اچھی عادت جو مجھ میں ہے وہ ہے خوشامد نہ کرنا۔ آج تک میں نے کبھی بھی اپنے کسی جائز کام کے لیے کسی کی بھی خوشامد نہیں کی۔ ناجائز کام تو ظاہر ہے ناجائز طریقے سے ہی ہوتا ہے۔ اگر مجھے کبھی اپنے سینئر سے کام پڑا تو خوشامد نہیں کی۔ سیدھی طرح طریقہ کار کے مطابق لکھ کر کہہ دیا یا زبانی کہہ دیا، اگر مان گئے تو ٹھیک نہ مانے تو پھر ناجائز طریقہ اختیار کیا۔ کسی اختیار والے کو کہہ دیا کہ یہ کام کرانا ہے۔ اسی خوشامد نہ کرنے کی وجہ سے اپنے افسرانِ بالا سے پوری طرح نہ بن پائی۔ ایک تو انکے منہ پر انکی غلطی بتا دینا اور دوسری خوشامد نہ کرنا ، یہ دونو ں باتیں افسروں کو ایک آنکھ نہ بھائیں، نہ بھاتی ہیں۔ اب تک آپ نے دوسرے ممبران سے متعلق میری مزاحیہ جھوٹی تحریریں پڑھیں۔ اس بار سوچا کہ کچھ اپنے بارے میں لکھ دوں کہ لوگ مجھ سے دوستی کرتے ہوئے کم از کم ایک بار ضرور سوچیں۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں، اسی کا نام زندگی ہے۔

تحریر: ابن نیاز