counter easy hit

متحدہ اور مہاجر قومی موئومنٹ کی سیاسی سرگرمیاں

Altaf Hussain

Altaf Hussain

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین جن کو کچھ بھی کہا جائے مگر مہاجر ووٹ تو اکثریت میں پڑتا ہی ان کو ہے۔اگر کوئی اس بات کی نفی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اُس کو مہاجر ووٹ پڑے گا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔1992 کا دورانیہ ساری مہاجر کمیونیٹی کو آج بھی یا دہے جب سر کاری ٹٹو حکومتی شہہ پر سندھ کے شہروں میں لا کرہمارے ادروں نے بٹھا دیئے تھے اور الطاف حسین کی ایم کیو ایم کے مد مقابل ایم کیا ایم حقیقی کے نام سے سندھ کی شہری سیاست میں گھُس بیٹھئے مسلط کرنے کے بعد مہاجر بچوں کا خون دونوں جانب سے پانی کی طرح بہا دیا گیا تھا۔

مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی اس آگ پر ہا تھ تاپ رہی تھیں۔مگر سرکاری سر پرستی کے باوجود بھی ان گھُس بیٹھئیوں کی عوام میں جڑیں مضبوط نہ بنائی جا سکی تھیں۔پھر نصیر اللہ بابر نے جو شہروں میں بربریت کا بیج بویا تھا ۔اُ سکی فصل آج تک پاکستان اور سندھ کے شہری علاقوں میں بسنے والے مہاجر کاٹتے رہے ہیں۔جس کے نتیجہ میںلاکھوں نوجوانوں کے ہاتھوں میں کلاشن کوف کے ساتھ بھاری ہتھیار تھما دئیے گئے۔ ان نوجونوں کی تعلیم وتربیت سب کچھ سرکاری ٹٹووں کی وجہ سے چھینا گیا اور آج وہ ہی راندے ِ درگاہوکر کسی اوٹ کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔جنہیں کہیںجائے پناہ دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ان میں سے کچھ تو جیلوں میں اپنے کئے کی سزابھگت رہے ہیںاورآج بھی اپنا مستقبل ان ہی لگوں کی آشیرواد میں دیکھ رہے ہیں۔

جمہوری معاشروں میں مشروم سیاست داں پید ا ہوتے ہیں۔ مگر اپنی ساکھ نہ ہونے کی وجہ سے آپ ہی اپنی سیاسی موت بھی مرجاتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کی عوام میں جڑیں نہیں ہوتی ہیں۔ہاں اگر ایجنسیاں ان کی بیساکھیاں بن جائیں تو یہ مشرو م کچھ عرصہ وینٹی لیٹر میں گذارنے کے قابل بن جاتے ہیں۔بڑی عجیب بات یہ ہے کہ لوگ کرائم کی وجہ سے جیلیں کاٹ کر باہر نکلتے ہیں تو وہ یہ گمان ساتھ لے کر نکلتے ہیں کہ اس جیل کی سزا کاٹنے کے بعد وہ آسانی سے سیاسی میدان کے شہسوار بن جائیں گے۔مگر ایسا ہوتا نہیں ہے۔جو لوگ کسی کاذ پر جیلیں کاٹتے ہیں وہ ہی دراصل سیاست کے میدان کے شہسور بھی بننے کے اہل ہوتے ہیں۔پاکستان کی سیاست کا پورا ماضی کھنگال لیں ،ایسے مشروموں کی لمبی قطاریں تو آپ دیکھ لیں گے مگر سیاست کی دنیا میں ان میں کامیاب کوئی بھی دکھائی نہیں دے گا۔

MQM

MQM

مہاجر قومی موومنٹ حقیقی کے چیئرمین آفاق احمد جو بلدیاتی سیاست میں قدم رنجہ ہواچاہتے ہیں ۔پچھلے دنوںان کا ذومنی بیان پڑھ کر ایک عجیب سا سیاسی احساس ذہن میں اُبھرا ہے ۔جس نے کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ متحدہ اور مہاجر قومی موومنٹ (حقیقی)کو سیاسی سر گرمیں سے روکا جا رہا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جماعتِ اسلامی ،تحریکِ انصاف ،پیپلز پارٹی جے یو آئی کسی کے پاس کراچی کا اسٹیک نہیں ہے۔یہ تو بلدیاتی انتخابات کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ کس کا اسٹیک اس شہرِ کراچی میں کتنا ہے اور کس کا اسٹیک ایجنسیوں کا مہتاج ہے؟ اور کس کا اسٹیک نہیں ہے؟ اگلے ہی سانس میں وہ کہتے ہیں کہ ان جماعتوں کو ووٹ ڈالنا الطاف حسین سے زیادہ بڑا گناہ ہے!اور سب سے بڑا ثواب ان کی نظر میں حقیقی کو ووٹ ڈالنا ہے۔

کیا آفاق احمد سمجھتے ہیں کہ متحدہ اور الطاف حسین دو الگ چیزیں ہیں؟جووہ امتحدہ کی تو ان جانے میں اس وقت تعریف کر رہے ہیںاور اس کے قائد کی مخالفتکسی ایجنڈے کے تحت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ان کا یہ بھی شکوہ ہے کہ مجھے میرے گھر میں محصور کر رکھا ہے؟مجھے جلسے کرنیکی اجازت نہیں مل رہی ہے۔ایک جانب ان کا کہناتھا (متحدہ قومی موومنٹ)ایم کیو ایم کوسیاسی سر گرمیوں سے روکا جارہا ہے …..تو دوسر جانب ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کو سندھ حکومت اور پولیس کی سر پرستی حاصل ہے۔اگر حکومتی سرپرستی کسی جماعت کو ہے تو اُسے الیکشن میں حصہ لینے سے روک کون رہا ہے؟

Afaq Ahmed

Afaq Ahmed

لاندھی کے متحدہ قومی موومنٹ کے اکثر امیدواروں نے ٹیلیفون پر شکایت کی ہے کہ ا ُنہی ںزبردستی پریشرائز کیا جا رہا ہے کہ وہ اس الیکشن سے اپنے آپ کو الگ کر لیں۔ دوسری جانب آفاق احمد کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے کارکن کھلے عام مخالف جماعتوں کے امیدواروں کو دھمکیاں دے رہے ہیں ۔جس کی شکایت بھی متعلقہ اداروں کو کردی گئی ہے۔اگر آفاق احمد اپنے آپ کو مہاجروں کا نمائندہ سمجھتے ہیں تو آنیوالا الیکشن دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دے گا۔ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؟

متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کا کہنا ہے کہ انہیں بلدیاتی انتخابات میں آزادانہ حصہ لینے کا موقعہ دیا جائے۔ایم کیو ایم کے بے گناہ کارکنوں کے گھروں پر پولیس اور سادہ لباس اہلکاروں کے چھاپے اورگرفتاریوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف وزیرِ داخلہ چوہدری نثارعلی خان اور وزیرِ اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور کراچی مانیٹرنگ کمیٹی کے اراکین سے مطالبہ کیا ہے کہ بلدیاتی انتخابی مہم کے دوران ایم کیو ایم کے کارکنوں کی گرفتاری کا نوٹس لیا جائے۔

دوسری جانب جب ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما فاروق ستار سے پوچھا گیا کہ کیا آفاق احمد ایم کیو ایم (متحدہ قومی موومنٹ) میں شامل ہو رہے ہیں؟ تو فاروق ستار نے انہیں ویل کم کہا اور کہا کہ الطاف بھائی سے وہ معافی مانگ لیں تو انہیں ایم کیو ایم میں شال کر لیا جائے گا؟؟؟یہاں دونوں جانب کے لئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کاکنوں کا لہو اس قدر سستا ہے کہ دونوں جانب سے آپس کی لڑائی میں ہزاروں کارکنوں کو اپنیسیاست کی بھینٹ چڑھا دیا جائے اور پھرچند سالوں کے وقفے کے بعد ایک معافی کے لفظ سے دونوں جانب کے کارکنوں کے لہو کو جھرنے کے بہتے پانی کے برابر بھی اہمیت نہ دی جائے۔

Afaq Ahmed

Afaq Ahmed

ہمارا سوال اُن کارکنوں سے بھی ہے کہ جن کارکنوں نے اپنا مستقبل اس اندھی سیاست میں گُم کر کے اپنے لئے اور اپنے خاندانوں کے لئے بے پناہ مسائل مول لے لیئے ہیں کیا وہ (اگرکرائم کے بھنور میں) جانے اَن جانے طریقے پر پھنس چکے ہیں تو ان سے کنارا کشی اختیار کرنے کا سوچیں گے؟؟؟جبکہ ہر دو سیاسی جماعت یہ ہی کہتی دکھائی دیتیی ہے کہ اُس کا کریمنلز سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہر سیاسی جماعت کو کریمنلز سے ہمیشہ کیلئے برء ات اختیار کرلینا چاہئے۔مگر اس کے لئے وِل کی ضرورت ہوتی ہے۔جو ہر جماعت کو اپنے اندر پیدا کر لینی چاہئے۔

کیا ہمارے سیاسی بازیگر یہ بھی نہیں سمجھتے کہ صاف سُتھری سیاست کا ہر فرد کو فائدہ ہوتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ڈرٹی پولیٹکس کا وقتی فائدہ تو ضرور ہوسکتا ہے مگر لونگ ٹرم نقصانات ہی نقصانات ہوتے ہیں۔موجودہ آپریشن کے باوجود مبصرین کی اکثریت کا یہ ہی کہنا ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں کی سیاست میں متحدہ قومی موومنٹ کا کوئی بھی حریف اسے آسانی کے ساتھ شکست نہیں دے سکتا ہے۔کیونکہ ان نبا گُفتہ بہ حالات کے باوجود بھی اس کے ووٹ بینک میں کمی تو ہوسکتی ہے ۔مگر اس کے باوجود اس کو شکست دینا آسان نہیں ہے۔پس ایم کیو ایم کو اپنا ماضی کا اندازِ سیاست تو بہر حال تبدیل کرنا ہی ہوگا۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو مسائل در مسائل حالات ایم کیو ایم کا پیچھا کرتے رہیں گے۔اس وقت صرف ایم کیو ایم کو اپسنے اوپر لگے دھبے دھونے کی ضرورت ہے۔

Shabbir khurshid

Shabbir khurshid

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir23khurshid@gmail.com