counter easy hit

بدقسمت کراچی کوچ کے 67مسافروں کی ہلاکتیں کس کے سر ہے

Dead Bodies

Dead Bodies

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
ایسالگتاہے کہ جیسے سرزمینِ پاکستان کے شہریوں کی قسمت میں غم اُٹھانالکھ دیا گیا ہے، اَب یہ اِن کی بد قسمتی نہیں ہے توکہو پھر یہ اور کیا ہے…؟؟کہ میرے ملک کے شہرکبھی دہشت گردی تو کبھی بسوں کے حادثات اور بعض دیگر حوادث کی صورت میں اپنے پیاروں کی لاشیں اپنے کاندھوں پہ اُٹھاتے ہیں،اور روپیٹنے کے بعدیہ سوچ کر خاموش ہوجاتے ہیں کہ اَب کچھ ٹھیک ہوجائے گا مگر ہائے رے افسوس کہ کچھ بھی درست نہیں ہوتاہے..سب ایساہی رہتاہے جیساپہلے تھااور پھر قوم کے حصے میں کوئی نیا حادثہ آجاتاہے، ابھی قوم سولہ دسمبر پشاور میں پیش آئے سانحہ سے بھی نہ سنبھال پائی تھی کہ میرے مُلک میں دیگر دہشت گردی کے واقعات رونماہوگئے آج بلاشبہ 10جنوری کو کراچی میں بس اورآئل ٹینکرمیں ہونے والا تصادم بھی ایک بڑا قومی سانحہ ہے جس نے ساری پاکستانی قوم کو غمزدہ کردیاہے اَب اِسے حاکم الوقت اور انتظامیہ کی نااہلی کہیں یا مُلک میں لاقانونیت کا راج …کہ کراچی سے شکارپورجانے والی بس کے مسافر موت کا شکار ہوگئے اور آغوش قبر میں اَبدی نیندجاسوئے ہیںمرحومین کی لاشوں کو ورثاءکے حوالے کرنے کے لئے لواحقین کے DNAٹیسٹ کئے جارہے ہیں اِس عمل کے دوران بھی کافی ٹائم لگ رہاہے اِس کی وجہ یہ ہے کراچی جیسے دنیا کے انٹرنیشنل شہر میں DNAٹیسٹ کی مشین تک نہیں ہے یہاں بھی سندھ حکومت کی نااہلی ہی سامنے آرہی ہے کہ اَب تک اِس نے شہر میں DNAٹیسٹ میشن کا بندوبست ہی نہیں کیا ہواہے اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میرے مُلک اور میرے شہر وں جتنے بھی اور جس قسم کے بھی حادثات رونماہوتے ہیں اِن میں یقیناانتظامیہ کی نااہلی کا عنصر سرفہرست ہوتاہے کراچی سے شکارپورجانے والی بس کے مسافروں کو پیش آئے واقعے میں بھی بڑی حد تک انتظامیہ کی نااہلی تھی جو حادثہ ہائی وے پر ڈرائیوروںکی خفلت سے رونماہوااور 67مسافر القمہ اجل بن گئے۔

یہ ٹھیک ہے کہ آج اگر ہمارے یہاں قانون اور قانون کی بالادستی قائم رہتی تو ممکن تھا کہ سانحہ نیشنل ہائی وے سمیت کوئی بھی سانحہ رونمانہ ہوتااور میرے دیس میں بھی دہشت گردی ، قتل وغارت گری اورکرپش جیسے بہت سے جرائم اُتنے نہ پنپ پاتے جتنے کہ آج یہ سر چڑھ کر بول رہے ہیں آج یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ میرے دیس میںکرپشن اور لاقانونیت کی مثال مُلک میں قانون سازی کرنے والے ایوانوں اور اداروں سے لے کر قبرستانوں تک میں موجود ہے،شائد یہی وجہ ہے کہ میرے مُلک میں اِنسانوں کی اہمیت چوپایوں اور حشرات الارض سے بھی کم ہے کیوں کہ میرے دیس میں قانون کا عملی اطلاق کہیں بھی نظرنہیں آتاہے ،اَب قانون کا مساوی اطلاق کون کرے گا اور کب ہوگا…؟ یہ اور اِس جیسے بہت سے سوالات خواب اور صرف کتابی اور طسلماتی سے لگنے لگے ہیں،آج اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ موجودہ حالات اور واقعات میں میری نوجوان نسل اپنے حکمرانوں ، سیاستدانوں ، علماءکرام ، دانشوروں، قانون دانوں، صحافیوں اور اہلِ ہنر وفن کے دُہرے معیار سے مایوس ہے اَب ایسے میں سب کو چاہئے کہ وہ اپنی نوجوان نسل کے تحفظات کو دورکریں اور اپنا اپنا وہ کردار پیش کریں جو اِن سب کا حقیقی کردار ہے ورنہ نوجوان نسل مخمصوں میں ہی پڑی رہے گی۔

بہر حال…!! دس جنوری ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب کراچی کے علاقے میمن گوٹھ سے متصل سُپر ہائی وے لنک روڈ پر شکار پور یا خیر پور جانے والی مسافر کوچ نمبرJB-1185 جس میں 60سے 70سے زائد افراد سوار تھے یہ بدقسمت بس مخالف سمت سے آنے والے ایک تیز رفتارآئل ٹینکرسے ٹکراگئی جس کے بعد یہ اطلاعات آئیں کہ اِس خوفناک تصادم کے بعد دونوں گاڑیوں میں آگ بھڑک جانے کے نتیجے میں 67افرادزندہ جل گئے جبکہ متعدد افراد زخمی ہوگئے ہلاک ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے یوں آج ایک بار پھر سانحات اور دہشت گردی کے نتیجے میں اپنے پیاروں کی ہلاکتوں سے پہلے ہی سے غم سے نڈھال میرے شہرکراچی کے محب وطن شہری اور میرے پیارے دیس پاکستان کے غیورعوام کے غموں میں اضافہ ہوگیاہے آج اِس سانحے پر ہر آنکھ اشکبار ہے اور حاکم الوقت اور اپنے کرتادھرتاو¿ں سے یہ سوالات کرتی ہے کہ آخر کب تک ہم کہیں دہشت گردی ، تو کہیں ٹارگٹ کلنگ ، تو کہیں انتظامیہ کی نااہلی و خودغرضی ،پولیس گردی اور سڑکوں پر ڈرائیوروں کی ڈرائیورگردی و بدمعاشی کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے اپنے پیاروں کے لاشے اپنے کاندھوں پہ اُٹھاتے رہیں گے…؟؟ اور اِنہیں اپنے ہاتھوں سے قبرکی آغوش میں سُلاتے رہیں گے..؟؟ اور زندگی بھر رونے کا روگ اپنے سینے سے لگائے بیٹھے رہیں گے …؟؟

جبکہ حاکم الوقت اور حکومتی انتظامیہ ہر سانحے اور حادثے کے بعد اپنا الزام دوسرے کے سر تھونپ کر بچ نکلتی رہے گی…؟؟اور میرے شہر اور مُلک کے محب وطن غریب پاکستانی شہری ہر سانحے اور حادثے پر اللہ کی رضاجان کر خاموش بیٹھ جایاکریںگے..؟؟آج یہ وہ سوالات ہیں جن کے فوری جوابات کا طلب گار ہر محب وطن غریب پاکستانی ہے ، کیا اِن سوالات کے جواب حاکم الوقت یا نااہلِ انتظامیہ کے کرتادھرتادے سکیں گے…؟؟ اگرچہ ہفتے اور اتوارکی درمیانی شب کو اسٹیل ٹاو¿ن کے قریب لنک روڈ پررات گئے مسافر بس اور آئل ٹینکرمیں67افرادکے جان بحق اور متعدد کے زخمی ہونے کا سانحہ کوئی نیا واقعہ نہیں تھاایسے واقعات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیںاب تک جن میں بے شمار افراد ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیںمگر افسوس ہے کہ ہر حادثے کے بعد انتظامیہ کی جانب سے اپنا قصورچھپانے کا سلسلہ شروع کردیاجاتاہے،جو کئی دِنوں، ہفتوں اور ششماہی تک جاری رہتاہے اور پھر یوں ہوتاہے کہ فائلیں دبادی جاتی ہیں، کوئی حل نہیں نکلتاہے اور سب ماضی کا حصہ بن جاتاہے،مگر کسی بھی حادثے کے بعد اگلے سانحے سے بچاو¿ کے لئے کسی قسم کا دیر پااور مستقبل تدارک کا کوئی انتظام نہیں کیا جاتاہے، یہی وجہ ہے کہ ہر سانحے کے بعد اگلے کسی خوفناک سانحے کا خدشہ موجود رہتاہے اور پھر وہی ہوجاتاہے جس کا ڈررہتاہے مگر حاکم الوقت اور صوبوں انتظامیہ ہیںکہ اِن کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگتی ہے ، قوم نے تو سوائے صبر کے کچھ نہیں کرناہوتاہے یہ اِس بار بھی یہی کرلے گی اوراِسے اُمید ہے کہ ابھی یہی کچھ ہوگا،جیساکہ حاکم الوقت اور ہر حادثے اور سانحے کے بعد صوبائی انتظامیہ کرتی آئی ہے۔

دس جنوری کو کراچی میں میمن گوٹھ تھانے کی حدود اسٹیل ٹاو¿ن سُپر ہائی وے سے متصل لنک روڈ پر مسافربس شعیب کوچ اور مخالف سمت سے آنے والے تیز رفتارآئل ٹینکرکے درمیان خوفناک تصادم کے نتیجے میں لگنے والی آگ سے 59 ہلاکتیں ممکن ہے کہ نہ ہوتیں جتنی کہ ہوگئیں ہیں اگر اِس بس میں باہر نکلنے والے راستوں / دروازوں پر ہائی ڈرولگ سسٹم(HYDRAULIC SYSTEM) نہ لگاہوتا…یہ ایک ایساکمپیوٹرائز نظام ہے جو آٹو میٹک کمپیوٹرائز سسٹم کا غلام ہوتاہے،جس سوائے بس ڈرائیور یا بس کے عملے کے کوئی دوسرااستعمال نہیں کرسکتاہے ، چوںکہ کسی بھی حادثے کے وقت بس کا ڈرائیور یا تو ہلاک ہوچکاہوتاہے یااگر کسی وجہ سے بس کا باقی عملہ بچ جاتاہے تو وہ پہلے اپنی جان بچا کر بھاگنے میں ہی اپنی عافیت جانتاہے یوں اکثر و بیشتر پیش آئے واقعات میں یہ بات مشاہدات میں آئی ہے اِس لئے ہمارے یہاں بد قسمتی سے جتنے بھی حادثات رونماہوئے ہیں،اور اِن حادثات کے نتیجے میںجتنی ہلاکتیںہوئیں ہیں،اِن کی ایک وجہ تصادم کے نتیجے میں بسوں میں نصب دروازے کھولنے والے سسٹم کا خراب ہوجانا یا نہ کھولے جانابھی ہے، جس کی وجہ سے حادثے کے وقت بسوں کے پلٹے جانے سے بسوںمیں قائم ون سائڈیٹ دروازوں کا بندہوجانا اور مسافروں کا فوری طور پر باہر نہ نکلنا بھی ہے، یوں متاثرہ بسوں کے مسافر عالمِ گھبراہٹ اور دم گھٹنے کی وجہ سے بڑی تعداد میں لقمہ اجل بن جاتے ہیں اور زخمی ہوجاتے ہیں۔

جبکہ یہاں یہ امر قابل توجہ اور غورطلب ہے کہ اگر حاکم الوقت اور صوبوں کی انتظامی اُمورچلانے والے ہائی ویز اور لنگ روٹوں کو چوڑااور کشادہ نہیں کرتے ہیں اور اِس مدقومی خزانے سے نکالی جانے والی رقوم اور اخراجات کو اپنے اللے تللے اور عیاشیوں میں اُڑادیتے ہیں تو کم از کم وہ یہ تو کرسکتے ہیں کہ مُلک کے غریب اور محب وطن شہریوں پہ اتنااحسان کردیں کہ ایک شہر سے دوسرے شہر وںیا ایک صوبے سے دوسرے صوبوں کو جانی والی لانگ روٹ کی بسوں میں ہنگامی اخراج کے ایک سے زائد دروازے بنائے جانے کے قانون پاس کروادیں اور اِن بسوں میں جتنے بھی ایسے ہنگامی اخراج کے راستے موجود ہوںوہ سب کے سب مینولی ہوںیعنی یہ کہ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں بسوںکے عملے کے علاوہ جنہیںسادہ طریقے کار کے استعمال سے فوری طورپر کوئی بھی مسافر کھول سکے)اور ایسے قوانین بھی بنائیں جائیں کہ کوچز اوربسوں کا عملہ روانگی سے قبل بس میں سوار مسافروںکو احتیاطی تدابیرسے بھی آگاہی دے کہ خدانخواستہ کسی بھی ناگہانی حادثے کی صورت میں دائیں یا بائیںبس کے پلٹے جانے پر یہ دروازے بھی فوری طور پر کھولے جاسکتے ہیںتاکہ مسافراپنی جانیں بچانے میں کامیاب ہوجائیں آج ایسے قوانین اور اِس سے بہتر طریقے کار کو رائج کرنے کی اشدضرورت ہے تاکہ ہمارے اِس لاقانونیت والے دیس میں مختلف بہانوں سے مرنے والے معصوم و غیور حب الوطنی شہریوں کو بچایاجاسکے اور غریب زندہ رہ سکیں۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com