counter easy hit

اور اب آرمی سکول پر حملہ

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

ع.م.بدر سرحدی
٢٢،ستمبر ٢٠١٣ ،کو پشاور میں چرچ پر دو خود کش حملے ہوئے ،٨١ ،افراد جاں بحق اور ١٥٠ زخمی…. ،جس سے دنیا ہل گئی تو اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ ایسے ہی دو ایک حملے اور ہونگے ،کیونکہ طالبان اپنے جس ایجنڈے پر کام کر رہے ہیںایسے حملہ جن سے دنیا ہل جائے ان کے ایجنڈے کا حصہ ہیں …لیکن ہوأ یہ کہ مذاکرات کا کھیل شروع ہو گیا ،اور یہ مذاکرات کا کھیل بھی اُن کے ایجنڈے کا حصہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ حکومت کو الجھائے رکھا جائے

خصوصا ملک میں اُن کے کھلے حمائتیوں کی بھی یہی اپروچ تھی ،اِس خطرناک کھیل بارے لکھا ، جو جون ٢٠١٤ تک جاری رہا ،یہ ملک اور قوم کی خوش قسمتی تھی کہ حکومت از خود اس کھیل سے باہر ہو گئی ورنہ تو طالبان کا انتہائی خطرناک ایجنڈا تھا کہ حکومت کو بند گلی میں لے جاکر وہ مطالبہ کیا جائے کہ اسے قبول کرنا گویا اپنے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کرنا، اگر اُس وقت حکومت انکار کر کے طاقت کا استعمال کرتی ہے

تو پاکستان دشمن قوتیں جو انہیں ہر طرح سے سپورٹ کر رہی ہیں کھل کر اُن کی پشت پر آجاتے اور ٧١ ء جیسی صورت حال ہوتی کہ بند گلی سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں تھی ، قوم و ملک کی یہ خوش قسمتی ہے کہ قبل ازوقت اس کھیل سے باہر ہوگئی ورنہ تو سہولت کار تو سر توڑ کوشش کر رہے تھے کے مذاکرات جاری رہیں ….. اور اب پشاور آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کاحملہ جس سے ایک بار پھر دنیا ہل گئی ہے ،کہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق ١٣٢،کے قریب پھول درند وں نے مسل دئے،مکرر یہ کہونگا کہ اِن کی ذہنی تربیت ہی اس انداز میں کی جاتی ہے کہ انسانی حس ختم ہوجاتی ہے اور وہ ایک روبوٹ بن جاتے ہیں انہیں تیار کرتے وقت بالکل الگ تھلگ رکھا جاتا ہے کہ انسانی ہمدردی،محبت اوررحم کے جذبات کی حدت ٹھنڈی ہو جائے عام انسان تو یہ خبر پڑھ کر ہی کانپ جاتا ہے

مگر وہ معصوم بچوں کو گولیاں مار رہے ہیں اور وہ …..اُف یہ منظر کتنا بھیانک ہوگا مگر دہشت گرد اُس پر کوئی اثر نہیں،کہ وہ انسان ہی نہیں بلکہ مشین ،پہلے میرا خیال تھا کہ انہیں ختم کرنا ممکن نہیں کیو نکہ وہ قوم کی آستینوں میں کہ یہاں اُن کے لئے حمائت موجود ہے اور ہر طرح سے تحفظ بھی . ….مگر اب جس لب و لہجہ میں جناب جنرل راحیل شریف نے کہا ہے ہم اِ ن کو ختم کر کے دم لیںگے ،اور ایسا ہی ہو گاکہ قوم متفق ہوکر پشت پر کھڑی ہوگئی ہے اب جون کے بعد سے کئی خونین خود کش حملے ہوئے ،مگر طالبان کا گاڈ فادر خاموش رہا جیسے وہ ملک ہی چھوڑ گئے ہیں ،سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن تو انہیں دشت گرد تسلیم کرنے سے انکاری ہیں،واہگہ بارڈر پر ہونے والے حملے پر لکھا تھا کے یہ دہشت گرد ہماری آستینوں میں چھپے ہیں اور انہیں تلاش کیا جارہا ہے

پہاڑو اور غاروں میں ….اس المناک سانحہ کے بعد چیف اف آرمی جناب راحیل شریف نے کہا دہشت گرد انسانیت کے دشمن ہیںہم وحشی درندوں اور سہولت کاروں کے خاتمے تک آپریشن جاری رکھیں گے ،یہاں پہلی مرتبہ سہولت کار کہا گیا ہے سابق حکومت مسلحت کا شکار رہی اور یہ سہولت کار حکومت کو استعمال کرتے اور دہشت گردوں کو سہولت فراہم کرتے رہے جس سے پچاس ہزار سے زائد معصوم نہتے عوام دہشت گردی کا شکار ہوئے،پانچ ہزار سے زائد فوجی جوان جن میں فیلڈ آفیسر بھی دہشت گردی کاشکار ہوئے ،اور جب تک یہ سہولت کا ر سفید لبادے میں موجود انہیںہر قسم کی سہولت پہنچتی رہے گی ،انہی سہولت کاروں کی وجہ سے طالبان قیادت کو آپریشن سے قبل ہی شمالی وزیر ستان سے نکل جانے کا مشورہ دیا گیا کہ فوج کے تیور ٹھیک نہیں کسی بھی وقت آپریشن شروع ہو سکتا ہے

جون میں آپریشن شروع ہونے کے بعد سے جہاں جہاں دہشت گرد ی ہوئی سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گرد طالبان وزیرستان سے نکل کرملک میں سہولت کاروں کی آستینوں میں آ بسے ہیں جہاں سے وہ اپنے ایجنڈے کے مطابق حملے کرتے ہیںیہ واہگہ بارڈر پر حملہ یا پشاور میںآرمی پبلک سکول پر حملہ یہ باقائدہ منصوبہ بندی کے تحت کئے جاتے ہیں، جنہیں دہشت گردانہ حملے کہا جاتا ہے یہ دہشت گردی نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف گوریلا جنگ ہے،سوال ہے پاکستان کے خلاف یہ جنگ کیوں ؟ ،یہ معصومانہ ایجنڈا ہے کہ دنیا کو فتح کرنے کے لئے پہلے پاکستان کو فتح کرنا ضروری ہے

اِس لئے کہ یہاں اُن کے لئے حمایت اور ہمدردی موجود ہے دوسرے یہاں سے وسائل ملیں گے اور بڑھ کر پاکستانی افواج کے ساتھ حرب وضرب کے تمام وسائل اُن کے قبضے میں ….اور پھر ایجنڈے کے دوسرے مرحلہ پر بھارت پر حملہ تیسرے مرحلہ پر چین کی طرف پیش قدمی اور پھر یورپ………. اور اس طرح دنیا کو حلقہ بگوش اسلام میں لا کر دنیا سے طاغوتی نظام کا خاتمہ ہوگا ،انہیں یہ علم نہیں کہ دنیا کے اس جنگل میں بہت بڑی بلائیں ہیں جومنہ پھاڑیں انہیں نگل جائیں گی ،وہ یہ بھول رہے ہیں یہ ٧ویں یا ٨ویں یا ٩ویں صدی نہیں ،دنیا صدیوں کی مسافت طے کر کے ٢١ ویں صدی میں سفر کر رہی ہے ،آج اپنے عوام اور سکول کے بچوں کو مار کر وہ سمجھتے ہیں ہم پاکستان پر قبضہ کر لیں گے تو یہ ان کی احمقانہ سوچ ہے…..

ماہنانہ عوامی محبت کے اقلیتی انٹرنیشل ایڈیشن کا دسمبر ٢٠١٤ کا شمارہ ملا جس میں رضا علی عابدی کا خاص مضمون عنوان ”جب سکردو میں فرشتے اترے” جنت کے متالاشیوں کے لئے سچی کہانی سکول تباہ کر کے یا بچوں مار کر نہیں بلکہ سکول بنا کر اور بچے بچا کر جنت ملے گی ناکہ اقتباس ابا بیلوں نے اترنا چھوڑ دیا لیکن فرشتوں کا اترنا ابھی جاری ہے سکردو سے بھی آگے ایک گاؤں کورفے اور شائد یہ پاکستان کا آخری گاؤں ہے اس سے آگے قرا قرم اور کے ٹو کی چوٹی ہے کوہ پیماؤں کی ٹیم کا ایک کوہ پیما ساتھیوں سے بچھڑ گیا اور گرتا پڑتا کسی طرح کورفے پہنچا بلتی باشندوں نے تباہ حال کوہ پیما ہ کی تیمار داری کی

جب اس کی سحت بحال ہوئی تو وہ گاؤں دیکھنے نکلا اور یہ منظر دیکھ کر کہ گاؤں میں کوئی سکول نہیں اور بچے کھلے آسمان تلے زمیں پر بیٹھے پڑھتے ہیں نہ کاغذ نہ قلم نہ کتاب زمین پر لکڑی سے حرف اور ہندے بناتے ….تب اُس نے یہ وعدہ کیا کے وہ امریکہ پہنچ کر چندہ اکٹھا کر کے یہاں سکول بنائے گا ،اور پھر گریگ نے امریکہ میں یہ مہم چلائی چندہ اکٹھا کیا اور یہاں آکر قرا قرم کی تاریخ میں پہلی بار کورفے میں سکول بنایا، پھر اس نے”سنٹرل اشیا انسٹی تٹیوت” کے نام سے تنظیم قائم کی اس وقت گلگت بلتستان سے لیکر واخان تک ہی جدید سکول بن گئے ….یہ تو اس کہانی کا ایک رخ ہے ،اب دوسرا باب یہ ہے

ایک چھ سالہ بچی سکینہ کی کہانی جس کی ماں کا نام چوچو اور باپ کا نا ابراہیم ،یہ بچی بستر سے اٹھنے کے بھی قابل نہیں تھی کے اُس کے دل میں سوراخ تھا ٢٠١١،میں یہاں تنظیم کی ٹیم آئی یہ لوگ سکول کا معائنہ کر رہے تھے تو ابراہیم ایک پھٹے پرانے کوٹ میں بچی کو لپیٹ کر لایا جب (CAI)کی ٹیم اور گریگ نے بچی کا معائنہ کیا تو اسکی سانس کی رفتار بے ڈھنگی تھی ہر سانس سے یہ گمان ہوتا کہ ابھی تھم جائے گی ،تب یہ لوگ بچی کو اٹھا کر سکردو لائے تاکہ ہسپتال میں اس کے ٹیسٹ ہوں،وہاں ہر قسم کے ٹیسٹ ہوئے جن کا ایک ہی نتیجہ تھا کہ بچی زیادہ عرصہ نہیں جئے گی

اتفاق سے اٹلی کے کوہ پیماؤں کی جماعت بھی سکردو میں تھی ،گریگ ٹیم کے دوسرے ساتھیوں اور بلتی مینجر نذیر نے اطالوی کوہ پیماؤں کی ٹیم سے کہا پہلے بچی کو دیکھیں ،اطالوی ٹیم میں شامل خاتون انالیزا نے بچی کا معائنہ کیا اور کہا کہ اس کا اپریشن کرنا ہوگا ورنہ اسکا بچنا مشکل ہے گریگ اور سی اے آئی کی ٹیم نے بتا یا کہ ٹیم اب زیادہ خرچ کی متحمل نہی ،اس پر انالیزا نے اعلان کیا وہ کچھ کرے گی ،اب بچی کے باقائدہ ٹیسٹ ہونے تھے چنانچہ ابراہیم اور سکینہ کو راولپنڈی پہنچایا گیا

جہاں فوجی ہسپتال میں اسکے ٹیسٹ ہوئے تشخیص پریشان کن تھی کہ اپریشن میں جان جانے کا بھی خطرہ ہے مگر اس فرشتہ سفت خاتون انالیزا نے حوصلہ نہیں چھوڑا اور اٹلی کے شہر میلان میں بچوں کے دل کے ماہرین ڈاکٹروں سے مشورہ کیا ،مشکل کے باوجود ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ وہ مدد کریں گے ،اس دوران ابراہیم اور بچی نے پنڈی میں پانچ ماہ گزارے کے ،مینجر نذیر نے پاسپورٹ اور ویزے کا بندو بست کیا ،ادھر اٹلی میں اس بچی سکینہ کے علاج اور دیگر خراجات کے لئے ١٣ ہزار ڈالر جمع کر لئے گئے ،١٧ فروری ٢٠١٢ کو سکینہ کا اپریشن …..اور اب وہ صحت مند ہوکر اپنے گاؤں کورفے پہنچ چکی ہے …”مگر پاکستا ن میں سکول دھامکوں سے اڑا دئے جاتے ہیںاگر اس پر بھی جی ٹھنڈا نہ ہو تو بچوں کو چن چن کر گولیوں کا نشانہ بھی بناتے ہیں ،یہ کہانی پرانی نہیں بلکہ یہ سچی کہانی جس کے کردار ابھی حیات ہیں،مگر ان پر ایسی کہانیوں کا کوئی اثر نہیں کہ وہ بے حس ہو چکے ہیں

تحریر : بدر سرحدی