counter easy hit

برلن میں ٹرک حملہ: کب کیا ہوا؟

جرمنی کے دارالحکومت برلن کے مرکزی علاقے واقع ایک کرسمس مارکیٹ میں ٹرک کے ذریعے حملہ کر کے 12 افراد کو ہلاک اور 48 کو زخمی کردیا گیا ہے جن میں 18 کی حالت تشویش ناک ہے۔

Truck Attack Berlin: When did this happen?

Truck Attack Berlin: When did this happen?

_93047831_680d4a09-722e-4c46-8bdb-b2b1e8fba147 _93047833_c6d35207-3e49-45c1-9f58-aff24edb71f8جرمن پولیس اس واقعے کی تحقیقات دشت گرد حملے طور پر کر رہی ہے۔ اس کا موازنہ جولائی میں فرانس کے شہر نیس میں ہونے والے ٹرک حملے سے کیا جا رہا ہے جس میں 86 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

جرمن وزیرداخلہ کا کہنا ہے کہ ایک 23 سالہ پاکستانی نژاد شخص کو پیر کی شب گرفتار کیا گیا ہے جو گذشتہ سال دسمبر میں جرمنی آیا تھا اور پناہ کا خواہشمند تھا۔

مشتبہ شخص نے اس واقعے میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے جبکہ جرمن وزیرداخلہ کا کہنا ہے کہ اس پاکستانی کا نام کچھ ڈیٹابیس میں موجود تھا لیکن انسداد دہشت گردی کی فہرست میں شامل نہیں تھا۔

مقامی وقت کے مطابق رات آٹھ بج کر 14 منٹ (سات بج پر 14 منٹ جی ایم ٹی وقت) پر سٹیل کی سلاخوں سے لدا ٹرک لڑکے کے بنے ہٹس اور سٹینڈز میں جا گھسا۔

یہ مارکیٹ سیاحوں اور مقامی افراد سے بھری ہوئی تھی۔

یہ ٹرک پولینڈ میں رجسٹرڈ تھا اور 160 سے 260 فٹ تک مارکیٹ کے اندر گھس گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق اس کی رفتار تقریبا 64 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی اور یہ مارکیٹ کے سٹالوں کو اڑاتی ہوئی پیچھے ملبہ اور زخمیوں کو چھوڑتا گیا۔

آسٹریلین شہری ٹریشا او نیل کا کہنا تھا کہ انھوں نے ‘خون اور لاشیں ہر جگہ دیکھیں۔ میں نے ایک بڑا کالے رنگ کا ٹرک مارکیٹ میں تیزی سے آتے دیکھا اور بہت سارے لوگوں کو کچلتے ہوئے اور اس کے بعد لائٹیں بجھ گئیں اور سب کچھ تباہ ہوگیا۔ میں چیخوں کی آواز سن سکتی تھی اور پھر یکدم خاموشی چھا گئی۔’

‘اس کے بعد لوگ اچانک ہلنا شروع ہوئے اور لوگوں نے ملبہ ہٹانے لگے، جو کوئی بھی وہاں تھا اس کی مدد کرنے لگے۔’

جب ٹرک رکا تو اس کا مشتبہ ڈرائیور اندھیرے میں ٹیئرگارٹن پارک میں فرار ہوگیا۔ ایک عینی شاہد جس نے پولیس کو بھی بلایا تھا، اس کے مطابق اس کو دو کلومیٹر تک پیچھا کیا گیا۔

جلد ہی انھوں نے وکٹری کالم کی یادگار کی قریب سے اسے پکڑ لیا۔

ٹرک کی ایک سیٹ پر ایک پولش شہری کی لاش ملی اور پولیس کے خیال میں ٹرک چلانے والا یہ شخص نہیں تھا۔ وہ ایک رجسٹرڈ ڈرائیور تھا اور اس کو پستول کے ذریعے ہلاک کیا گیا تھا۔

ٹرک کے پولش مالک ایریل زوروسکی کا کہنا ہے کہ ان کا پیر کی شام چار بجے سے اپنے ڈرائیور سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

ایریل زوروسکی نے پولش ٹی وی چینل کو بتایا کہ ٹرک سے ملنے والا لاش ان کے کزن کی ہے۔ انھوں نے اصرار کیا کہ ‘میرا ڈرائیور ایسا نہیں کر سکتا۔۔۔ ضرور اس کے ساتھ کچھ ہوا ہے۔’

جرمن نیوز ویب سائٹ فوکس کا کہنا ہے کہ ٹرک کے جی پی آڑ ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیر کی دوپہر ٹرک کا انجن کئی بار سٹارٹ کیا گیا تھا اور بالآخر سات بج کر 34 منٹ پر بند کیا گیا۔

ایک پولش فرم میں کام کرنے ایک شخص لکاش واسک کا کہنا تھا کہ اس ٹرک کو کھڑے رہنا تھا کیونکہ اس میں سے سامان منگل کو اتارا جانا تھا۔

کئی گھنٹوں تک اس واقعے کو دہشت گردی قرار دینے سے اجتناب کیا جاتا رہا اور پھر جرمن وزیرداخلہ ڈی میزیئر نے اسے دہشت گردی قرار دیا۔

جرمن صدر جوشم گیوک نے واقعے پر افسوس اور متاثرین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔

منگل کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق جرمن سپیشل فورسز نے برلن کے ایک پرانے ہوائی اڈے پر تلاش کا کام کیا ہے۔

یہ ایئرپورٹ 1930 کی دہائی میں نازیوں نے تعمیر کیا تھا اور حال ہی میں 2000 کے قریب تارکین وطن کا گھر بن گیا ہے۔

فوریزک مارہرین جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کر رہے ہیں۔

جرمن چانسلر انگیلا مرکل نے قوم سے خطاب میں کہا ہے کہ ‘ہمیں اس کو ایک دہشت گرد حملہ تصور کرنا چاہیے۔’

تاحال اس کے شواہد نہیں ملے۔ نیس میں ہونے والا حملہ تیونیسی نژاد شخص نے کیا تھا جس کی ذمہ داری دولت اسلامیہ نے قبول کی تھی۔

اس شدت پسند گروہ کے خلاف عراق اور شام میں مغربی ممالک اور روسی فضائیہ کارروائی کر رہی ہے اور اس گروہ کی جانب سے اپنے حمایتوں کو مغربی ممالک میں گاڑیوں کا استعمال کرتے ہوئے حملہ کرنے کا پیغام جاری کیا گیا تھا۔

جرمنی میں پناہ حاصل کرنے کی درخواست دینے والوں کی جانب سے چار حملے ہوچکے ہیں جن میں دو کی ذمہ داری دولت اسلامیہ نے قبول کی تھی۔

جرمنی کی تارکین وطن مخالف جماعت آلٹرنیٹیو فار جرمنی نے انگیلا مرکل کی تارکین وطن کے حوالے سے پالیسیوں پر کڑی تنقید کی تھی اور اس کو سکیورٹی رسک قرار دیا تھا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website