counter easy hit

قبائلی عوام ہمارے اپنے لوگ، تحفظ ہماری ذمہ داری، شمالی وزیرستان میں آپریشن کے بعد سرحد کے اس طرف سکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں، پاکستانی فوجی حکام

قبائلی عوام ہمارے اپنے لوگ، تحفظ ہماری ذمہ داری، شمالی وزیرستان میں آپریشن کے بعد سرحد کے اس طرف سکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں، پاکستانی فوجی حکام
Tribal people our own people, our security, after the operation in North Waziristan there is no problem of security on the border, Pakistani military officialsراولپنڈی: (اصغر علی مبارک) تمام خطرات افغان سرحد پار سے ہیں، افغان فوج کے ساتھ سرحد کی نگرانی کیلئے بات چیت کا باقاعدہ نظام چاہتے ہیں تاہم افغان حکام اکثر اجلاسوں میں شرکت کیلئے نہیں آتے،قبائلی عوام ہمارے اپنے لوگ ہیں اور ان کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے، اجتماعی سزا کا تاثر درست نہیں، تاثر عوام اور سکیورٹی فورسز کے درمیان بد اعتمادی پیدا کرنے کیلئے پھیلائی جارہا ہے فوجی حکام کا کہنا ہے شمالی وزیرستان میں آپریشن کے بعد سرحد کے اس طرف سکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں بلکہ تمام خطرات سرحد کے اس پار افغانستان کی جانب سے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سرحد کی سکیورٹی معاملات پر پاکستانی فوجی حکام، افغان نیشنل آرمی کے اہلکاروں کے ساتھ باقاعدہ مشورے کرنے کا خواہشمند ہیں۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے شمالی وزیرستان دور ے پر جانے والے صحافیوں کو بتایا گیاکہ پاکستانی حکام کی خواہش ہے کہ سرحدی امور اور سکیورٹی کی نگرانی سے متعلق تین ماہ میں ایک اجلاس کا انعقاد کیا جا سکے تاکہ سرحد پر غیر قانونی آمدورفت کو روکا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے افغان حکام کیساتھ بات چیت میں کوئی مسئلہ نہیں تاہم افغان سرحدی حکام اکثر اجلاس کیلئے حاضر نہیں ہوتے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان سائیڈ پر کافی علاقے سکیورٹی فورسز کے کنٹرول سے باہر ہیں۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ غلام خان سرحدایک ماہ میں کھول لیا جائے گی اور اس سلسلے میں سرحد پر لوگوں کی شناخت اور قانونی آمد ورفت کے علاوہ تجارتی گاڑیوں کی سکینگ کیلئے ایک منظم نظام بنایا جارہا ہے۔ اس وقت نادرا اور کسٹم سہولیات کے علاوہ دیگرسہولیات کی فراہمی کیلئے ایک موثر نظام پر کام ہو رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ سہولیات فراہم کرنے کی پیش نظر سرحد کھولنے میں تاخیر ہو رہی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستانی مسلح گروہوں اور ان کے غیر ملکی شدت پسند مہمانوں کے خلاف جون 2014 کے آپریشن کے بعد غلام خان سرحد بند کردی گئی تھی۔غلام خان سرحد طورخم اور چمن کے بعد تیسرا بڑا کراسنگ پوائنٹ ہے جہاں سے روزانہ سینکڑوں گاڑیاں اور لوگوں کی قانونی آمدو رفت شروع ہو جائے گی۔غلام خان چمن اور طورخم کے علاوہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان16 اعلان شدہ کراسنگ پوائنٹس ہیں۔
اس کے علاوہ سینکڑوں غیر قانونی راستے موجود ہیں۔غلام خان کے علاوہ کرم ایجنسی خرلاچی سرحدی پوائنٹ کو بھی ترقی دی جارہی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق افغانستان کے ساتھ سرحد پر نگرانی کیلئے فرنٹیئر کو ر کی73 ونگز بنائے جارہے ہیں ۔ ایک ونگ میںجوانوںکی تعداد850 ہو گی۔ اس وقت تک 29 ونگز بنائے جا چکے ہیں اور 14 بہت جلد فاٹا اور بلوچستان میں سرحدی امور کی ذمہ داری دی جائے گی۔صحافیوں کو بتا یا گیا کہ غلام خان سرحد تک موٹر وے کی طرح روڈ یا سڑک کی تعمیرکی گئی ہے اور سرحد کھلنے کے بعدنہ صرف شمالی وزیرستان بلکہ پاکستان اور پورے خطے کی تجارتی سرگرمیوں میں اس سرحدی گیٹ کا بڑا اہم کردار ہوگا۔ فوجی حکام اور شمالی وزیرستان کے انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے صحافیوں کو بتایا کہ ضرب عضب آپریشن کے بعد افغانستان جانے والے پاکستان کے زیادہ لوگ واپس آگئے ہیں تاہم بقیہ رہنے والے بھی جلد واپس آجائیں گے۔انہوں نے کہا کہ باقی رہ جانے والوں کی واپسی 7کو فروری کو شروع ہونا تھی اور اس سلسلے میں پاکستانی حکام نے انتظامات بھی کر لیے تھے لیکن افغان حکام کی طرف سے انہیں نہیں آنے دیاگیا۔ بتایا گیا کہ واپسی کیلئے افغان حکام کے ساتھ باضابطہ رابطہ کیا گیا تھا تاہم بعد میں اس جانب سے وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔صحافیوں کو افغان سرحد کیساتھ لگائی گئی باڑ دکھانے کے علاوہ میرانشاہ میں فوج کی جانب سے ترقیاتی کام دکھائے گئے۔زیر تعمیر منصوبوں میں سب سے بڑا میرانشاہ میں جدید طرز کا مارکیٹ تعمیر کرنا ہے۔ مارکیٹ کی تعمیر تکمیل کے آخری مراحل میں ہے اور صحافیوں کو بتایا کہ تقریباًً دو ماہ کے اندر اس کی تکمیل مکمل ہو جائیگی۔پاک افغان سرحد پر شمالی وزیرستان کے’ کیٹون‘ قلعہ میں بریفینگ دیتے ہوئے صحافیوں کو بتایا گیا کہ باڑ لگاناانتہائی مشکل کام ہے کیونکہ ہزاروں فٹ بلندی پر باڑ کی تعمیر کیلئے سامان کبھی کبھی کندھوں اورخچروں پر لے جایا جاتا ہے۔آئی ایس پی آر کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات کے مطابق تقریباًً 2611 کلو میٹر سرحد پر باڑ لگانے کا عمل دسمبر2019 تک مکمل کیا جائے گا جس پر 56 ارپ روپے لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔منصوبے کے مطابق سرحدی نگرانی کیلئے تقریباًً 750 قلعے اور چیک پوسٹس بنائے جائیں گے اور ہر قلعہ ڈیڑھ کلومیٹر سے لیکرتین کلو میٹر کے فاصلے پر بنائے جائیں گے۔
گزشتہ سال باڑ کی تعمیر کے آغاز کے بعد اس وقت تک 140 قلعوں کی تعمیر مکمل کی گئی ہے اور 15 کی تعمیر پر اس وقت کام جاری ہے۔اس وقت تک باجوڑ ،مہمند، خیبر، شمالی اور جنوبی وزیرستان میں 160 کلو میٹر سرحد پر باڑ لگائی گئی ہیں۔فوجی حکام نے کہا کہ باڑ کی تعمیر سے سرحد کے دونوں جانب شرپسندوں کو موثر طریقے سے روکا جا سکے گا۔صحافیوں کو بتایا گیا کہ پاکستانی اور افغان سائیڈ پر قلعوں اور چیک پوسٹوں کی تعداد میں سات اور ایک کا فرق ہے۔صرف شمالی وزیرستان کے دیگر سیکٹر میں اس وقت ٹوچی سکائوٹس 93 چیک پوسٹوں کی نگرانی کررہے ہیں جبکہ افغان علاقے میں چیک پوسٹوں کی تعداد صرف11 ہیں۔ جس کا تناسب8.1 بنتا ہے۔ایک فوجی افسر نے بتایا کہ باڑ کے علاوہ پاک فوج سرحد کی ٹیکنیکل مانیٹرنگ کیلئے بہت موثر آلات بھی لگا رہی ہے جس میں زیر زمین سنسر بھی شامل ہیں تاکہ نقل و حرکت کو معلوم کیا جاسکے۔اس کے علاوہ دور تک دکھائے دینے والے کیمرے بھی لگائے جا رہے ہیں۔سولر لائٹس اور دوہری مواصلاتی نظام کی تنصیب بھی کی جارہی ہے۔ایک سوال پر اعلیٰ فوجی کمانڈر نے ان میڈیا رپورٹس کی تردید کی کہ بارودی سرنگوں کی وجہ سے عام لوگوں کی اموات میں اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ بارودی سرنگوں کو یاتو صاف کردیا گیا ہے اور لوگ کچھ پہاڑی علاقوں میں موجودبھی ہیں تو وہاں اس کی واضح طور نشاندہی کی گئی ہے اور وہ سرحد پر غیر قانونی آمد ورفت کو روکنے کیلئے بچھائی گئی تھیں۔فوجی کمانڈر نے اس تاثر کو بھی غلط قرار دیا ہے کہ اجتماعی سزا کا نظام اس وقت بھی موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ تاثر عوام اور سکیورٹی فورسز کے درمیان بد اعتمادی پیدا کرنے کیلئے پھیلائی جارہاہے ۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی عوام ہمارے اپنے لوگ ہیں اور ان کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔