counter easy hit

ٹریول ایجنٹ کی پھرتیاں۔۔۔کس طرح سادہ لوح عوام کو بیوقوف بناتے ہیں

لاہور (ویب ڈیسک) حج عمرہ ٹریول ایجنٹ بزنس میں اتنا کما لیتے ہیں کہ پورا سال بیٹھ کر کھا سکتے ہیں۔ پوری دنیا سے حج عمرہ ٹریول ایجنٹوں کی کمائی کا مہنگا ترین سیزن حج ہے پھر رمضان المبارک اور اس کے بعد دسمبر کی چھٹیاں۔ پیکج کا ریٹ ان تین سیزنوں میں ہائی ہوتا ہے جبکہ پورا سال کمائی عروج پر ہے۔نامور کالم نگار طیبہ ضیا چیمہ اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔ حج عمرہ ٹریول ایجنسی کی بڑی کمپنیاں عمرہ کے ہائی سیزن اور کے لئے حج مہینوں پہلے جہاز اور مکہ مدینہ میں ہوٹل کے کمرے بلاک کرا لیتے ہیں اور عازمین حج رو عمرہ کو ڈبل قیمت میں پیکج فروخت کرتے ہیں۔ سعودی حج منسٹری کے قانون میں جب سے پیکج سسٹم لاگو کیا گیا ہے کوئی مسافر خود سے جہاز کا ٹکٹ اور کمرہ بک کرانے کا مجاز نہیں لہذا مجبوری ڈبل قیمت ادا کراتی ہے۔ امریکہ سے حج دس ہزار سے پندرہ ہزار ڈالر فی حاجی ہے۔ جو اتنی بچت یعنی استطاعت رکھتا ہو اس پر حج فرض ہے جبکہ مڈل کلاس طبقہ امریکہ سے حج کرنا افورڈ نہیں کر سکتا۔ رمضان آخری عشرہ اور حج کے پیکج میں خاص فرق نہیں رہا۔ رمضان پیکج بہت مہنگا ہو چکا ہے۔ سعودی عرب میں حج عمرہ مکتبہ والے صرف حج سیزن میں اتنا مال بنا لیتے ہیں کہ تمام سال ورلڈ ٹرپ انجوائے کرتے ہیں۔ عازمین عمرہ کو سب سے زیادہ پاکستان میں لوٹا جاتا ہے۔ایک لاکھ روپے فی بندہ کے پیکج والوں کو تو انسان بھی نہیں سمجھا جاتا۔ پاکستان میں حج عمرہ ٹریول ایجنسیوں کی باز پرس کیْلئے سخت قانون سازی کی ضرورت ہے۔انڈونیشیا ملایشیا ترکی حتی کہ بنگلہ دیش اور انڈیا سے گروپ منظم اور تعلیم و تربیت کے ساتھ لائے جاتے ہیں جبکہ پاکستانی زائرین کے گروپس الاماشاء اللہ حج عمرہ کے بارے میں بے ترتیب، نہ تعلیم نہ تربیت، بے مہار منہ اٹھائے جو سمجھ آئے کرتے پائے جاتے ہیں۔ عمرہ حج ویزہ کی آڑ میں بھکاریوں کی پکڑ دھکڑ کے بعد اس فراڈ بازی میں خاصی کمی دیکھنے میں آئی ہے لیکن پاکستانی بھکاریوں نے فراڈ کے انداز بدل لئے ہیں۔ مسجد نبوی کے گیٹ کے پاس خوش لباس پاکستانی مرد عورت اورپریم بچہ میں لئے کھڑے تھے۔ مرد نے ہمارے قریب آکر کہا مسجد میں بٹوہ چوری ہوگیا ہے۔ فراڈ شکل بدل رہا ہے اور یہ لوگ پاکستانی گھٹیا معیار کی ٹریول ایجنسیوں کے بھیجے ہوئے پیشہ ور گدا گر ہوتے ہیں۔مسجد نبوی کے صحن کی رونق قابل دید ہوتی ہے۔ مسجد نبوی کا ہر صحن دنیا کا منفرد ماحول پیش کرتا ہے۔ دنیا بھر سے آئے مہمان ایک دوسرے سے خوش گپیوں میں مشغول ہوتے ہیں۔پاکستان کے دیہی اور غریب علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کی خوشی بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔کیا ہی اچھا ہواگر ان سادہ خواتین کو حرمین شریفین کی حاضری اور عمرہ سے متعلق اہم معلومات بھی مہیا کر دی جائیں۔پاکستان سے آئے اللہ کے مہمانوں کو گلہ ہے کہسعودی متوے (مولوی) ان کی عزت نہیں کرتے جبکہ پاکستانی بھی اپنے حالات کا جائزہ لینے کا تردد نہیں کرتے۔اس سلسلے میں سب سے بڑی مجرم پاکستان کی حج عمرہ ٹریول ایجنسیاں ہیں۔گروپ بھیج دیتے ہیں، پیسے بٹور لیتے ہیں مگر جہاں بھیج رہے ہیں وہاں کے قوانین اورقواعدو ضوابط کی مکمل معلومات نہیں دیتے۔غیر منظم لا وارث پاکستانی گروپس کا صرف اللہ وارث ہے۔زائرین مکہ کی کہانیاں سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ دور دراز ہوٹل ہونے کی وجہ سے زائرین کی کثیر تعداد حرم میں پڑی رہتی ہے۔ انہیں یہی خوشی بہت ہے کہ وہ سوہنے کے گھر پہنچ گئے اور ان کی اس سادگی اور محبت کا ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ ایک لاکھ روپے کا عمرہ پیکج ایک غریب آدمی کی شاید زندگی بھر کی جمع پونجی ہے جس پر ٹریول ایجنٹ ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ زائرین اکثر سوال کرتے ہیں کہ حرمین شریفین میں اللہ کی راہ میں کیسے خرچ کیا جائے ؟ مساجد حرمین میں سبیل دینا بہترین مہمان نوازی ہے۔ سبیل وہ صدقہ ہے جسے سب کھا سکتے ہیں۔اگر حیثیت ہے تو بریانی یا روٹی سالن وغیرہ تقسیم کیا جائے۔ ستر لوگوں کے لئے قریبا ساڑھے چھ سو رالہ میں چکن بریانی کی سبیل تیار مل جاتی ہے۔مکہ مدینہ کے فائیو سٹار ہوٹلوں کی پشت پر قریبا پندرہ بیس منٹ کی واک پر پاکستانی ریستوران ہیں جو دیسی کھانوں کی سبیل تیار کر دیتے ہیں۔ حیثیت کے مطابق کھجوریں ، پانی کی چھوٹی بوتلیں یا جوس کے ڈبے وغیرہ بھی سبیل کئے جا سکتے ہیں۔ صدقہ جاریہ کے لئے قرآن پاک بھی مساجد حرمین میں ہدیہ کیا جا سکتا ہے۔ چھوٹے سائز کاقرآن پاک کا ہدیہ بیس رالٹ ہے۔ مساجد حرمین کے سامنے ٹھیلے والوں کے پاس دستیاب ہوتے ہیں لیکن یاد رہے پاکستانی زائرین عربی خط میں لکھا قرآن پڑھنے میں دقّت محسوس کرتے ہیں لہذا نیلا اور سبز دو رنگ کی جلد میں قرآن شائع کئے جاتے ہیں۔ پاکستانی زائرین نیلے رنگ کی جلد میں قرآن ہدیہ کریں اور تلاوت میں بھی آسانی ہوگی۔اس کے علاوہ مساجد حرمین میں خدمات انجام دینے والے ملازمین کو بھی حسب حیثیت رقم ہدیہ کرنے کی اجازت ہے۔ مساجد حرمین کے باہر صحن کی صفائی پرفائز اکثریت بنگالی اور انڈین ملازمین کی ہے۔ جب سے حکومت نے حرم کے ملازمین کے لئے ہدیہ لینا جائز قرار دیا ہے مشاہدہ ہے کہ صفائی والے ہدیہ لینے کے لئے زائرین کے منہ تکتے رہتے ہیں ، یہ انداز گو کہ مناسب نہیں لیکن سفید پوشی کی وجہ سے ان کو ہدیہ جائز ہے۔ رالم دو رال جتنی بھی استعداد ہو۔ خاص طور پر مسجد نبوی میں حاضری کو جاتے وقت کچھ رقم ہدیہ کرنا چاہئے۔کچھ سعودی نوجوانوں نے بھی مسجد الحرام کی صفائی کا کام اپنے ہاتھ میں لے لیاہے۔ سعودی اخبار کے مطابق 50 سے زیادہ سعودی نوجوانوں کا پہلا گروپ اس مقصد کیلئے تیار کیا گیا ہے۔ یہ نوجوان حرم شریف کے صحنوں، دالانوں اور چھت کی صفائی جدید ترین مشینوں کی مددسے کریںگے۔ انہیں ایک طرف تو صفائی کی نئی مشینیں استعمال کرنے کی تربیت دی گئی۔ دوسری جانب انہیں حجاج ، معتمرین ، زائرین اور نمازیوں کے ساتھ مثالی شکل میں پیش آنے کی تعلیم بھی دی گئی۔پرانی مشینوں کی جگہ نئی مشینیں مہیا کی گئی ہیں۔ حرمین شریفین کی انتظامیہ صفائی کا معیار بلند کرنے اور اسے برقرار رکھنے کیلئے دستی صفائی کے بجائے مشینوں پر انحصار کرنے کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔سعودی باشندے نہ ہدیہ لیتے ہیں نہ سبیل۔ جبکہ حرمین میں کوئی امیر غریب نہیں سب اس در کے منگتے ہیں۔ بلا شبہ اللہ نے جس کو اپنے گھر آنے کی سعادت دی ،اسے قبول و منظور فرما لیا مگر بندے پر بھی اللہ کے احکامات کا من و عن احترام واجب ہے۔ خوشبو والا صابن استعمال نہ کیا جائے۔ حالت احرام خواتین کے چہرے پر کپڑا نہیں لگنا چاہئے، وضو کے بعد تولیہ سے چہرہ خشک کرنے سے پرہیز کیا جائے۔ عورت اگر سیاہ عبایا پہن لے نہ صرف مکمل پردہ ہو گا بلکہ سعودی عملہ کے تعصبانہ سلوک سے بھی بچ سکے گی۔سعی کے سات چکروں کے بعد اچھا خاصا صحت مند اور کھلاڑی انسان بھی تھک جاتا ہے۔اس کی روحانی وجہ بی بی ہا جرہ کی مشقت کا کچھ حصہ ہے جو ہر مسلمان کو بطور اجر دیا جاتا ہے۔ سعی سے فارغ ہو کر خواتین کو بال کٹوانے کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔یاد رکھیں صرف وہی شخص بال کاٹ سکتا ہے جو خود احرام میں نہ ہو۔ مناسب یہی ہے کہ خاتون کا محرم حجام سے بال کٹوا کر آئے تو اپنی خاتون کی چوٹی کے آخر سے تھوڑے سے بال کاٹ دے۔عمرہ کے بعد انسان ایسا ہو جاتا ہے جیسے آج پیدا ہوا ہے۔پھر بال کٹوانے کا حکم ہے جیسے نومولود بچہ کے بال کاٹے جاتے ہیں۔ اللہ کے گھر جانے والے عرضیاں ڈال آئیں اور منظوری پر پختہ ایمان رکھیں۔ہم زندگی میں منصوبہ بندی کے قائل نہیں۔ عرضی اور منظوری پر یقین رکھتے ہیں۔ جب یہ سمجھ آگئی کہ پلاننگ صرف اللہ سبحان تعالیٰ کی ہوتی ہے اوربندے کی تو صرف عرضی اور کوشش ہوتی ہے تو ہم نے پلاننگ کا بوجھ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ میری عرضی اور رب کی مرضی۔۔۔ بس یہی فلسفہ قرب الٰہی اور عمرہ حج کی سعادت کا نچوڑ ہے۔۔